جشن جمہوریہ ہند

   

درد جن میں نہیں غریبوں کا
خود کو غم خوار کہنے والے ہیں
جشن جمہوریہ ہند
آج ہندوستان کا یوم جمہوریہ ہے ۔ سارے ملک میںجشن جمہوریہ پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ ہندوستان نے جمہوریت کے سات دہوں کا سفر طئے کرلیا ہے اور اس معاملہ میں ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں جمہوریت کا پورا احترام کیا جاتا رہا ہے اور جمہوری اصولوںکی پاسداری کا پورا خیال رکھا جاتا رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں تاہم یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں ۔ اس کیلئے ملک کے عوام ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہندوستانی عوام نے تو ہمیشہ ہی جمہوریت میںیقین رکھا ہے اور جمہوری ڈھانچہ کے استحکام کیلئے اپنی جانب سے ہر ممکن کوششیں کی ہیں تاہم ملک کے سیاستدانوں کی جانب سے جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ بھونڈے مذاق کئے جاتے ہیں اور اپنے ذاتی اور سیاسی فائدوں کیلئے جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جاتا ہے ۔ انتخابات کا عمل ہو یا پھر کوئی اور موقع ہو ہمارے سیاستدانوں کی جانب سے جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے ۔ خاص طور پر انتخابات کے موقع پر تو طاقت اور پیسے کا جو بے دریغ استعمال ہوتا ہے ‘ جس طرح شراب بہائی جاتی ہے ‘ جس طرح سے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے ‘ جس طرح سے سرکاری مشنری اور عہدیداروں کا بیجا استعمال کیا جاتا ہے وہ ملک کی جمہوریت کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں ہے اور اس سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں۔ حالیہ عرصہ میںایک اور قابل تشویش بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ ملک میںرائے دہی کے تناسب میں مسلسل گراوٹ اور کمی درج کی جار ہی ہے ۔ اس کی وجہ بھی ہمارے ملک کے سیاستدان ہی ہیں۔ ان کا طرز عمل ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ رائے دہی جیسے جمہوری فریضہ سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جہاں سیاستدانوں اور ہمارے حکمرانوں کو چاہئے ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عوام میں اس تعلق سے نیا جوش و خروش پیدا کریں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے اور ہمارے سیاستدان ایسی حرکات و سکنات کے مرتکب ہوتے ہیں جن سے عوام رائے دہی سے دور ہو رہے ہیں۔ یہ ملک کی جمہوریت اور انتخابی عمل کیلئے ایک تشویشناک امر ہی کہا جاسکتا ہے ۔
حالیہ عرصہ میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتیں خود بھی جمہوری اور دستوری اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگی ہیں۔ ان اداروں کی خود مختاری کونشانہ بناتے ہوئے وہاں سیاسی اور سرکاری مداخلت عروج پر پہونچ گئی ہے جس کے نتیجہ میں ان اداروں کی آزادی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں اور وہ کامل یقین سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں جس طرح سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے شبہات پیدا کئے گئے ہیں وہ بھی ایک اہم پہلو ہے جس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات چونکہ جمہوری عمل کا بنیادی حصہ ہیں اور ان کے ذریعہ عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملتا ہے ‘ عوام خود اپنی پسند کی حکومت چنتے ہیںاس لئے انتخابی عمل پر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو دور کرنا اور عوام میں اس تعلق سے اطمینان کی فضاء پیدا کرنا ہر ایک کا فریضہ ہے۔ خاص طور پر حکومتوں اور اس سے متعلقہ اداروں پراس کی زائد ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ووٹنگ مشینوں میںچھیڑ چھاڑ کے تعلق سے جس طرح کے الزامات کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آ رہے ہیںا ن کے نتیجہ میںبھی ملک کی جمہوریت کے تئیں عوام کا اعتماد اور یقین متزلزل ہوسکتا ہے۔ ایسی امکانی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنا بھی ہر دستوری اور جمہوری ادارہ کا فریضہ ہے ۔ حکومت کو اس میں بھی اپنا سرگرم رول ادا کرتے ہوئے عوام کے شکوک و شبہات کو دور کرنا چاہئے ۔
آج جبکہ ہم اپنے وطن عزیز کا جشن جمہوریہ منا رہے ہیں ہمیں اس تعلق سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے ۔ اس کے فروغ کیلئے اپنا فریضہ ادا کرینگے ۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں سے کھلواڑ کرنے والوں کو برداشت نہیںکرینگے اور نہ ہی کسی کو ایساکرنے کی اجازت دینگے کہ وہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ جب تک ملک کے عوام میںاس تعلق سے کوئی قطعی رائے قائم نہیں ہوجاتی اور عوام اپنی جمہوریت کا تحفظ کرنے کا تہئیہ نہیںکرلیتے اس وقت تک سیاستدان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آسکتے ۔ اس وقت تک عوام کو جمہوریت کے حقیقی معنوں سے آشنا کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ ملک کے عوام ہی سیاستدانوں کو ان کی حرکتوں پر سبق سکھاسکتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے ۔