جمہوریت پر سونیا گاندھی کی تشویش

   

انا کے قصر میں قائم انہیں خدا رکھے
شکستہ میرا مکاں دیکھ کر نہیں آئے
جمہوریت پر سونیا گاندھی کی تشویش
کانگریس کی کارگذار صدرسونیا گاندھی نے مرکز کی نریندر مودی حکومت پر انتقامی جذبہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور یہ دعوی کیا کہ حکومت اقتدار کیلئے عوامی تائید کا خطرناک استعمال کر رہی ہے اور اس سے جمہوریت کو نقصان ہو رہا ہے ۔ جس وقت سے مودی حکومت نے ملک میں اقتدار سنبھالا ہے اسی وقت سے یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ حکومت نے اپنی پہلی معیاد کے دوران حالانکہ قدرے سست انداز اختیار کیا تھا لیکن سابقہ معیاد میں بھی حکومت نے جمہوری اداروں کی اہمیت کو گھٹانے والے اقدامات ـضرور کئے تھے ۔ حکومت پر یہ بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ وہ اکثریتی غلبہ کے تحت کام کر رہی ہے اور پارلیمنٹ ہو یا پارلیمنٹ کے باہر ہو جمہوری عمل کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ملک میں سپریم کورٹ پر دباو بڑھ جانے کا خود ججس نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا پر بھی حکومت کی کٹھ پتلی بن جانے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں اور گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اس طرح کے الزامات میںمزید اضافہ ہوگیا تھا ۔ یہ بھی تاثر ہر گوشے میں عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت مرکزی ایجنسیوں جیسے سی بی آئی اور ای ڈی وغیرہ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے انہیں اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے اور دھمکانے کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ مرکزی حکومت پر دوسری جماعتوں کے قائدین کی انحراف کیلئے حوصلہ افزائی کرنے کے الزام بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اس کیلئے کرناٹک اور مغربی بنگال کے حوالے دئے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کے تین ارکان راجیہ سبھا کو پہلے مقدمات سے ڈرایا گیا ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے اور انہیں پھر بی جے پی کی صفوں میںشامل کرلیا گیا اور اب ان کے خلاف مقدمات کا کہیں تذکرہ ہی نہیںکیا جا رہا ہے ۔اس طرح کی مثالیں پیش کرتے ہوئے حکومت پر اکثریتی غلبہ کے تحت کام کرنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور اب کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے جمہوریت کو نقصان پہونچانے کا بھی حکومت پر الزام عائد کردیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کا سلسلہ سا شروع کردیا ہے اور جو قائدین اس کی دھمکیوں سے مرعوب ہوکر یا مقدمات کے خوف سے بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں انہیں کلین چٹ مل گئی ہے ۔ ایسا صرف آندھرا پردیش میں نہیں ہوا بلکہ مغربی بنگال میں بھی ہوا ۔ وہاں بھی ترنمول کے کچھ قائدین کو شاردا چٹ فنڈ اور دوسرے اسکامس میںماخوذ کیا گیا اور جب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے تو انہیں کلین چٹ عملا دیدی گئی ہے ۔سونیا گاندھی نے جو الزام عائد کیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ جمہوری اداروں کو حکومت کی جانب سے بے اثر کردیا جارہا ہے یا کردیا گیا ہے ۔ ان میں الیکشن کمیشن کی مثال دی جاتی ہے ۔ ای ڈی اور سی بی آئی جیسے اداروں کے بیجا استعمال کے واقعات ہیں۔ مقدمات کے ذریعہ سیاسی مخالفین کو ڈرانا دھمکانا بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی حکومت جو طریقہ کار اختیار کر رہی ہے اور انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس نوعیت کے مسائل پر بھی کسی طرح کے مباحث کے بغیر یا پھر اپوزیشن کی رائے کا احترام کئے بغیر قانون سازیاں کر رہی ہیں۔ حکومت نے ایک طرح سے اپوزیشن کو بے اثر ہی کرکے رکھ دیا ہے اور اپوزیشن کی آواز کو ہر طرح سے دبادیا جارہا ہے ۔
حکومت کے جو حلیف ہیں وہ بھی اس سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اگر حکومت کے کسی منصوبے یا فیصلے سے مطمئن نہ بھی ہوں تو وہ مجبورا حکومت کا ساتھ دینے لگے ہیں۔ اس طرح سے جمہوری عمل پر منفی اثرات ضرور مرتب ہو رہے ہیں۔ سونیا گاندھی کی تشویش بیجا نہیں ہے بلکہ اس رائے کو اہمیت دی جانی چاہئے ۔ جمہوریت میں اپوزیشن کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی حکومتوں کی ہے ۔ حکومتیں فیصلہ سازی کرتی ہیں تو اپوزیشن اس فیصلہ سازی میں خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو جمہوری عمل کو تقویت پہونچانے کیلئے اپنے اپنے فرائض کی دیانتداری سے انجام دہی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ محض اکثریتی غلبہ سے کام کیا جائے تو اس سے یقینی طور پر جمہوری عمل خطرہ کا شکار ہو جائے گا ۔