جمہوریت پر شب خون

   

انسان دم بخود ہے تماشوں کے درمیاں
جمہوریت کا ناچ ہے لاشوں کے درمیاں
جمہوریت پر شب خون
مہاراشٹرا کی ریاست میں ہفتہ کی صبح جو واقعات پیش آئے ہیں اورجس دیدہ دلیری کے ساتھ حکومت اور دستوری عہدوں پر فائز گوشوں کی جانب سے جمہوریت کا قتل کیا گیا اور اقتدار کی ہوس و لالچ کا مظاہرہ کیا گیا اس نے سارے صحیح العقل افراد کو متحیر کردیا ہے ۔ جنگ کی اصطلاح میں شب خون کا لفظ تھا تاہم مہاراشٹرا میں علی الصبح ڈاکہ زنی ہوئی ہے اور وہ بھی دستور اور قانون کے محافظوں کی جانب سے ۔ جمعہ کی رات دیر گئے این سی پی سربراہ شرد پوار اعلان کرتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ہونگے ۔ این سی پی اور کانگریس ان کی تائید کریگی ۔ تاہم جب لوگ صبح نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو انہیں جھٹکا لگتا ہے ۔اطلاع ملتی ہے کہ صبح 5.30 بجے کابینہ کا اجلاس ہوا ۔ گورنر سے ریاست میں صدر راج کو ختم کرنے کی سفارش موصول ہوئی ۔ 5.47 بجے صدر راج کو ختم کردیا گیا اور صبح آٹھ بجے تک ریاست میں نئے چیف منسٹر دیویندر فرنویس کو اور نئے ڈپٹی چیف منسٹر اجیت پوار کو حلف دلادیا گیا ۔ یہ سب کچھ اس طرح سے کیا گیا جیسے مہاراشٹرا کسی دشمن فوج یا ملک کے قبضہ میں ہو اور دشمن کے جاگنے سے پہلے پہلے اس کے قلعہ پر قبضہ کرکے اسے معزول کردیا گیا ہو ۔ مہاراشٹرا ہندوستان کی ایک اہم ریاست ہے ۔ یہاں بھی ملک کا دستور اور قانون نافذ ہے ۔ یہاں بھی دستور اور قانون کے مطابق حکومت بننی چاہئے ۔ تاہم شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس کو حکومت سازی کا موقع ملنے سے قبل جس طرح سے سارا ڈرامہ رچا گیا وہ بالی ووڈ کی فلموں سے زیادہ سنسنی خیز ثابت ہوا ہے ۔ اس سارے معاملہ پر جو سوال پیدا ہونے لگے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی جمہوریت کے ساتھ ایک انتہائی بھونڈا مذاق کیا گیا ہے بلکہ یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک میں جمہوریت اب صرف برائے نام رہ گئی ہے اور شاہی فرامین جاری کرتے ہوئے کسی کو بھی اقتدار بخش دیا جائیگا اور کسی کا بھی اقتدار چھین لیا جائیگا ۔ اب جو دعوی کئے جا رہے ہیں کہ این سی پی کے تائیدی مکتوب کی بنیاد پر ایسا کیا گیا ۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین ہے ۔ صبح 5.30 بجے کابینہ کا اجلاس اور صدر راج کی برخواستگی میں عجلت کی وجہ نہیں بتائی جا رہی ۔
گورنر کا کہنا ہے کہ انہیں این سی پی کی تائیدی مکتوب موصول ہوا تھا ۔ پہلے تو گورنر کو اس کی صداقت کی جانچ کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ چند ہی گھنٹے قبل شرد پوار نے اعلان کردیاتھا کہ این سی پی ‘ شیوسینا کی تائید کریگی اور ادھو ٹھاکرے ریاست کے چیف منسٹر ہونگے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ دو گھنٹوں میں جس طرح سے کابینہ کا اجلاس ہوا ‘ صدر راج برخواست کرنے کی سفارش کی گئی ‘ صدر راج برخواست کیا گیا ‘ گورنر نے فرنویس کو تشکیل حکومت کی دعوت دی اور فرنویس نے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف بھی لے لیا ۔ یہ کسی بالی ووڈ فلم میں بھی اتنی تیزی سے ممکن نہیں تھا جتنا دہلی دربار سے مہاراشٹرا کے راج بھون تک ہوگیا ۔ جہاں تک مہاراشٹرا میں نتائج کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تعلق ہے گورنر کے اقدامات پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے بی جے پی کو حکومت سازی کی دعوت دی اور 48 گھنٹے کا وقت دیا ۔ بی جے پی کی معذرت خواہی کے بعد شیوسینا کو دعوت دی اور صرف 24 گھنٹے کا وقت دیا ۔ شیوسینا نے مزید وقت مانگا تو این سی پی کو 24 گھنٹے کی دعوت دی اور اس مہلت کے خاتمہ سے قبل ہی انہوں نے وہاں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کردی ۔ مرکزی کابینہ نے بھی اس سفارش کو قبول کرکے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور صدر جمہوریہ ہند نے اس فیصلے کو اپنی مہر بھی لگادی ۔
کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ صدر راج کی برخواستگی کیلئے مرکزی کابینہ نے سفارش نہیں کی بلکہ صرف ایک آرڈر تیار کیا گیا جس پر صدر جمہوریہ نے دستخط کردئے ۔ یہ بھی روایات سے انحراف ہے ۔ حالانکہ وزیر اعظم کو بعض معاملات میں کابینہ کے اجلاس کے بغیر احکام کی اجرائی کا اختیار حاصل ہے تاہم یہ صرف انتہائی ہنگامی حالات میں ہوتا ہے ۔ جہاں تک ایک چیف منسٹر کی حلف برداری کی بات ہے تو اسے ہم کسی بھی حال میں ہنگامی صورتحال قرار نہیں دے سکتے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا کے واقعات سے ثابت کردیا ہے کہ وہ اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ دستور و قانون کی دھجیاں اڑانا اس کیلئے معنی نہیں رکھتا اور جمہوریت اس کی نظر میں محض ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ ہندوستان میں دستور وقانون کی بالا دستی اور جمہوریت کی بقاء کے تناظر میں مہاراشٹرا کا فیصلہ تشویش ناک ہی ہے ۔