جنگ بندی پر ہندوستان کا موقف

   

رمزِ الفت بے سنائے بھی عیاں ہوتا گیا
جب کہ خود چہرہ ہمارا ترجماں ہوتا گیا
ساری دنیا میں حماس ۔ اسرائیل جنگ میں ہونے والے جانی نقصانات پر تشویش پائی جاتی ہے ۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگ حماس کو نشانہ بنانے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کر رہے ہیں۔ جو ممالک اسرائیلی جارحیت اور انسانیت سوز کارروائیوں کا جواز دینے میں مصروف تھے اب وہ بھی ایک طرح سے فلسطینیوں کی نسل کشی اورقتل عام پر بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسا ناکارہ اور کچھ ممالک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہونے کے باوجود اس نسل کشی اور بے چینی پر آواز اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تاہم کچھ ممالک ایسے ہیں جو دنیا میں امن و چین اور سکون و سلامتی کی بات کرتے ہیں اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں جب حماس۔ اسرائیل جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی تو اس کی مخالفت کی گئی اور کچھ ممالک نے اس پر کوئی موقف اختیار کئے بغیر رائے دہی سے غیر حاضری اختیار کی ۔ یہ ان ممالک کے دوہرے معیارات ہیں اور ڈوغلا پن ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ سے فلسطینی کاز کی تائید کرنے اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کی حمایت کرنے والے ہمارے اپنے ملک ہندوستان نے بھی اس رائے دہی کے موقع پر غیر حاضری اختیار کی ہے ۔ جب سے حماس ۔ اسرائیل جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے ہی ساری دنیا کا ایک مخصوص گوشہ اسرائیل کے حق مدافعت کی وکالت کرنے میں مصروف ہوگیا ہے ۔ میڈیا اداروں کا ڈوغلا پن تو عروج پر ہے ۔ انہیں حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی فکر تو ہے اسرائیل کے بچوں کے حقوق کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن روزآنہ جو سینکڑوں فلسطینی مارے جارہے ہیں اور فلسطینی بچوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے اس تعلق سے ان میڈیا اداروں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ وہ ایک طرح سے اندھے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کے حقوق کے تعلق سے انہوںنے بے حسی اختیار کرلی ہے ۔ جس طرح سارے غزہ کو ملبہ کے ڈھیر اور کھنڈر میں مبتلا کردیا گیا ہے اس پر کسی کو کوئی احساس انسانیت نہیںہو رہا ہے اور اب بھی یہ لوگ اسرائیل کے جارحانہ اور غاصبانہ حملوں اور کارروائیوں کی مدافعت کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے میں ہی مصروف ہیں۔
ہندوستان نے ابتداء میں اسرائیل کے حق مدافعت کی تائید کی تھی تاہم بعد میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے فلسطینی کاز کی بھی حمایت کی ہے ۔ کئی دہوں سے ہندوستان فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہا ہے ۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے بھی فلسطین کے حق کی تائید کی ہے ۔ خود گاندھی جی نے کہا تھا کہ فلسطین عربوں کی سرزمین ہے او راسرائیل کو اس کا تخلیہ کرنا ہوگا ۔اس کے باوجود ہمارے کچھ قائدین اور مخصوص سوچ و فکر رکھنے والے افراد چاہے وہ میڈیا سے ہوں یا کسی بھی گوشے سے ہوں انہوں نے اسرائیلی جارحیت کو اس کا حق قرار دینے شروع کردیا ہے اور یہ ہندوستان کے دیرینہ موقف کے مغائر ہے ۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف احتیار کیا ہے وہ بھی ایک طرح سے فلسطینی کاز سے خود کو علیحدہ کرنے کے مترادف ہی ہے ۔ سب سے اولین بات تو یہ ہے کہ فلسطین کے نہتے عوام کے تئیں ہماری بے حسی ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ نہیں سوچا گیا جنگ بندی کی بات ہو رہی ہے تاکہ خون خرابہ روکا جاسکے ۔ جو تباہی مچائی جا رہی ہے اسے بند کیا جاسکے اور قیامت صغری کا سلسلہ دراز ہونے نہ دیا جائے ۔ جنگ بندی کی تائید ہر ملک کو کرنی چاہئے تھی ۔ جو کچھ بھی وہاں چل رہا ہے اس کو روکنے کیلئے ہر ایک کو اپنی رائے طاہر کرنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ یہ اس لئے بھی زیادہ افسوس کی بات ہے کیونکہ ہندوستان کا بنیادی اصول ہے کہ تشدد اور خون خرابہ نہ ہونے پائے ۔ اس کے باوجود فلسطینیوں کے خون ناحق کو روکنے کیلئے رائے نہیں دی گئی ۔
سچائی اور حق پرستی کے علاوہ اصول اور ضوابط پر ہمارے ملک کی بنیادیں ہیں ۔ فلسطین میں جنگ بندی کے حق میں رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے ہندوستان نے ان اصولوںکو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اس خطہ میں تمام تر بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔ ظلم و سفاکیت کا ننگا ناچ کیا جا رہا ہے اور انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دباو بنانے کی بجائے رائے دہی سے غیر حاضری اختیار کرتے ہوئے ایک طرح سے ہندوستان نے فلسطین کے تعلق سے اپنے دیرینہ اور اصولی موقف سے انحراف کرلیا ہے اور یہ قابل افسوس ہے ۔ ساری دنیا کو اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
مہوا موئترا کے خلاف تحقیقات
پارلیمنٹ میں سوالات پوچھنے کے عوض رقم حاصل کرنے کے الزامات کا ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا سامنا کر رہی ہیں۔ ایک سپریم کورٹ وکیل کے علاوہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے ان کے خلاف یہ الزامات عائد کئے ہیں اور مہوا موئترا نے ابتداء ہی میں کہا تھا کہ وہ ان الزامات کے سلسلہ میںکسی بھی طرح کی تحقیقات اور انکوائری کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب انہیں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے سوالات کرنے کیلئے طلب کیا ہے ۔ وہ اس کمیٹی میںحاضر ہونگی اورا پنے موقف کی وضاحت کریں گی ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں سوالات پوچھنے سے متعلق اپنے آئی ڈی کی تفصیل درشن ہیرانندانی کے سپرد کی تھیں۔ اب اس کے بعد سوال پوچھنے کے عوض رقومات حاصل کرنے کے جو الزامات ہیں ان کی سچائی کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ واقعی ایسا ہوا ہے یا پھر سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے اس طرح کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیںیہ بات اہمیت کی حامل ہے ۔تحقیقات کے جو ذمہ داران ہیں انہیں اپنا کام پوری دیانتداری اور غیر جانبداری کے ساتھ کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ تحقیقاتی عمل پر سیاسی فائدہ یا نقصان کیلئے اثر انداز ہونے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور نہ ہی اس کا سیاسی مفادات کیلئے استحصال ہونا چاہئے ۔ جس طرح کی بیان بازیاں اب شروع کردی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ شبہات پیدا ہونے لگے ہیں کہ سیاسی مقصد براری کیلئے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ تحقیقات کی تکمیل تک کسی کو بھی اس کے استحصال کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔