حج بدل

   

سوال : بکر ایک تاجر پیشہ ہے ‘ اسکا کاروبار کافی وسیع ہے ۔ اوربکر اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینا چاہتاہے اور بکر نے اب تک حج نہیں کیا۔ بکر کے دل میں بہت خواہش و تمنا ہے کہ حج و زیارت کی سعادت حاصل کرے ‘بکر کے پاس مال و دولت ہے ‘ کوئی ذمہ داری وغیرہ کچھ نہیں ‘ صحت مند ہے‘کوئی عارضہ لاحق نہیں ‘ بکر اگر حج کیلئے جائے تو بکر کا کاروبار بڑی حد تک متاثر ہوجائیگا ۔ اس لئے بکر کی خواہش ہے کہ اس کی طرف سے کسی کو حج بدل کرایاجائے ۔کیا حج بدل کرانے سے بکر کی طرف سے حج ساقط ہوجائے گا یا نہیں ؟
جواب : شریعت مطہرہ میں عبادات کی تین نوعیتیں ہیں (۱) خالص مالی عبادت جیسے زکوٰۃ اور صدقہ فطر (۲) خالص بدنی عبادت جیسے نماز اور روزہ (۳) مالی و بدنی عبادت جیسے حج ۔ پہلی قسم کی عبادت جیسے زکوٰۃ میں اختیار و اضطرار ہر دو صورت میں دوسرے کو نائب بنانا درست ہے ۔ دوسری قسم کی عبادت مثلاً نماز و روزہ میں کسی کو نائب بنانا درست نہیں ۔ تیسری قسم کی عبادت جیسے حج میں اس وقت نائب بنانا درست ہے جبکہ آدمی سفر حج یا فریضہ حج ادا کرنے سے عاجز ہو ۔ و نیز فرض حج بدل کیلئے بھی شرط ہیکہ وہ حج بدل کرانے سے موت تک اسکو دوبارہ قدرت حاصل نہ ہو ۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۵۷ میں ہے: و منھا استدامۃ العجز من وقت الا حجاج الی وقت الموت ھکذا فی البدائع۔ اگر کوئی شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے اور کسی دوسرے کو حج بدل کرائے تو اس کی طرف سے حج ساقط نہیں ہوگا ۔ اس کو دوبارہ حج کرنا لازم ہوگا ۔ پس دریافت شدہ مسئلہ میں بکر پر حج فرض ہوچکا ہے اوربکر صاحبِ قدرت ہیں ‘بکر کا اپنی طرف سے فرض حج کیلئے کسی کو نائب بنانا اور حج بدل کرانا شرعاً درست نہیں، کیونکہ شریعت کی رو سے اگر کوئی تاجر پیشہ ہو اور تجارت کر کے زندگی بسر کرتا ہو ‘ حج کی استطاعت رکھتا ہو ‘ توشہ و سواری پر قادر ہو ‘ جا کر آنے تک آل و اولاد کا نفقہ موجود ہو اور اس کے واپسی تک تجارت کا اصل سرمایہ اس کے پاس باقی رہتا ہو تو ایسے شخص پر حج کرنا لازم ہے۔’عالمگیری ج اول ص ۳۱۸: قال بعض العلماء ان کان الرجل تاجرا یعیش بالتجارۃ فملک مالا مقدار ما لو رفع منھا الزاد والراحلۃ لذھابہ و ایابہ و نفقۃ اولادہ و عیالہ من وقت خروجہ الی وقت رجوعہ و یبقی لہ بعد رجوعہ راس التجارۃ التی کان یتجر بھا کان علیہ الحج ۔ فقط واللہ أعلم
قربانی کی قیمت صدقہ کرنا
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ اگر کوئی شخص قربانی نہ دے اور اس کی قیمت فقراء اور مساکین پر تقسیم کرنا چاہئے تو درست ہے یا نہیں؟
بینوا تؤجروا
جواب : ایام ِقربانی میں جانور ذبح کرنا لازم ہے ۔ قیمت دینے سے واجب قربانی ادا نہیں ہوتی ۔ عالمگیری ج : ۵ کتاب الاضحیۃ میں ہے ’’ و منھا انہ لا یقوم مقامھا فی الوقت حتی لو تصدق یعنی الشاۃ او قیمتھا فی الوقت لا یجزئہ عن الاضحیۃ ‘‘۔ فقط واللّٰہ أعلم بالصواب