حضرت اما م جعفر صادقؓ کے حالات ومناقب

   

حافظ محمد سعیدالدین قادری نظامی

آ پ کا نام جعفر صادق یا جعفر ابن محمد الباقراور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔آپ نہ صرف مجموعہ کمالات وپیشوائے طریقت کے مشائخ ہیں بلکہ ارباب ذوق اورعاشقان طریقت اورزہدان عالی مقام کے مقتدا بھی ہیں نیز آپ نے اپنی بہت سی تصانیف میں راز ہائے طریقت کوبڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے اوراپنے والد محترم حضرت امام باقرؓ کے بھی کثیر مناقب روایت کئے ہیں۔
خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق کو میرے روبرو پیش کروتاکہ میں ان کو قتل کردوں۔وزیر نے عرض کیا کہ دنیا کو خیرباد کہہ کر جو شخص عزلت نشین ہوگیا ہواس کو قتل کرنا قرین مصلحت نہیں لیکن خلیفہ نے غضب ناک ہو کر کہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے ۔چنانچہ مجبوراً جب وزیر امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کو لینے چلا گیا تومنصور نے غلاموں کو ہدایت کردی کہ جس وقت میں اپنے سر سے تاج اتاروں توتم فی الفور امام جعفر صادق کوقتل کردینا لیکن جب آپ تشریف لائے تو آپ کے عظمت وجلال نے خلیفہ کوا س درجہ متاثر کیا کہ وہ بے قرار ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہوگیا اورنہ صرف آپ کو صد رمقام پر بٹھایا بلکہ خود بھی مؤدبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اورضروریات کے متعلق دریافت کرنے لگا۔آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت وضرورت یہ ہے کہ آئندہ پھر کبھی مجھے دربار میں طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت وریاضت میں خلل واقع نہ ہو۔چنانچہ منصور نے وعدہ کرکے عزت اوراحترام کے ساتھ آپ کو رخصت کیا لیکن آپ کے دبدبے کا اس پرایسا اثر ہوا کہ لرزہ براندا م ہو کر مکمل تین شب وروز بے ہوش رہا ۔لیکن بعض روایات میں ہے کہ تین نمازوں کے قضا ہونے کی حد تک غشی طاری رہی۔بہرحال خلیفہ کی یہ حالت دیکھ کر وزیر اورغلام حیران ہوگئے۔اورجب خلیفہ سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ جس وقت امام جعفر صادق میرے پاس تشریف لائے توان کے ساتھ اتنا بڑا اژدھا تھا جواپنے جبڑوں کے درمیان پورے چبوترے کوگھیرے میں لے سکتا تھا اوروہ اپنی زبان میں مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اگر تونے ذرا سی گستاخی کی تو تجھ کوچبوترے سمیت نگل جائوں گا۔چنانچہ اس کی دہشت مجھ پرطاری ہوگئی اورمیں نے آپ سے معافی طلب کرلی۔
جب آپ تارک دنیا ہوگئے توحضرت ابوسفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا مخلوق آپ کے تارک الدنیا ہونے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہوگئی ہے ۔آپ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل شعر پڑھے۔ ترجمہ : کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئی اورلوگ اپنے خیالات میں غر ق رہ گئے۔گوبظاہر ایک دوسرے کے ساتھ اظہار محبت ووفا کرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھوئوں سے لبریز ہیں۔

ایک دفعہ آپ کو بیش بہا لباس میں دیکھ کر کسی نے اعتراض کیا کہ اتنا قیمتی لباس اہلِ بیت کے لئے مناسب نہیں۔توآپ نے اس کاہاتھ پکڑ کرجب اپنی آستین پر پھیرا تواس کو آپ کا لباس ٹاٹ سے بھی زیادہ کھردرا محسوس ہوا۔اس وقت آپ نے فرمایا ’’مخلوق کی نگاہوں میں تو یہ عمدہ لباس ہے لیکن حق کے لئے یہی کھردرا ہے‘‘۔
ایک مرتبہ آپ نے امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ دانش مندکی کیا تعریف ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ جوبھلائی اوربرائی میں امتیاز کرسکے۔ آپ نے کہا یہ امتیاز توجانور بھی کرلیتے ہیں کیونکہ جوان کی خدمت کرتاہے ان کو ایذا نہیں پہنچاتے اورجوتکلیف دیتا ہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے پوچھاکہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے؟جواب دیا کہ جودوبھلائیوں میں سے بہتربھلائی کواختیار کرے اوردوبرائیوں سے مصلحتاًکم برائی پرعمل کرے۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری فضل وکمال کے باوجود آپ میں تکبر پایا جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا میں متکبر تو نہیں ہوں ۔البتہ جب میں نے کبر کو ترک کیا تو میرے رب کی کبریائی نے مجھے گھیر لیا۔اس لئے میں اپنے کبر پرنازاں نہیں ہوں،بلکہ میں تو رب کی کبریائی پر فخر کرتا ہوں ۔
کسی شخص کی دینار کی تھیلی گم ہوگئی تواس نے آپ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ میری تھیلی آپ ہی نے چرائی ہے حضرت جعفر نے اس سے سوال کیا کہ اس میں کتنی رقم تھی؟اس نے کہادوہزار دینار۔چنانچہ گھر لے جا کر آپ نے اس کو دوہزار دینار دے دیئے اوربعد میں جب اس کی کھوئی ہوئی تھیلی کسی دوسری جگہ سے مل گئی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر کے معافی چاہتے ہوئے آپ سے رقم واپس لینے کی درخواست کی،لیکن آپ نے فرمایا ہم کسی کو دے کر واپس نہیں لیتے پھر جب لوگوں سے اس کو آپ کااسم گرامی معلوم ہوا تو اس نے بے حد ندامت کااظہار کیا۔
ایک مرتبہ آپ تنہا اللہ جل شانہ کاورد کرتے ہوئے کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک اور شخص بھی اللہ جل شانہ کا ورد کرتا ہوا آپ کے ساتھ ہوگیا ۔اس وقت آپ کی زبان سے نکلا کہ اے اللہ! اس وقت میرے پاس کوئی بہترلباس نہیں ہے۔ چنانچہ یہ کہتے ہی غیب سے ایک بہت قیمتی لباس نمودار ہوا اور آپ نے زیب تن کرلیا لیکن اس شخص نے جوآپ کے ساتھ لگا ہوا تھاعرض کیا کہ میں بھی تواللہ جل شانہ کا ورد کرنے میں آپ کاشریک ہوں لہٰذا آپ اپنا پرانا لباس مجھے عنایت فرمادیں ۔آپ نے لبا س اتار کر اس کے حوالے کردیا۔