حضرت علیؓ کا ایمان افروز فرمان

   

ابوزھیر سید زبیر ہاشمی نظامی

خلیفہ چہارم حضرت امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے کسی نے ایمان کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ’’ ایمان چار ستونوں پر قائم ہے:
(الف) صبر ۔ (ب) یقین ۔ (ج) عدل ۔ (د) جہاد ۔
پھر آپ نے ہر ایک کی علحدہ علحدہ تشریح فرمائی کہ صبر کی چار شاخیں ہیں : ( ۱ ) اشتیاق : جو جنت کا مشتاق ہوگا وہ خواہشوں کو بھلا دے گا (۲) خوف : جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا ( ۳ ) بے اعتنائی : جو دنیا سے بے اعتنائی کرے گا وہ مصیبتوں کو سہل جانے گا (۴)انتظار : جسے موت کا انتظار ہوگا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا۔
یقین کی چار شاخیں ہیں :
( ۱ ) روشن نگاہی : جو دانش و آگہی حاصل کرے گا روشن نگاہ ہوگا (۲ ) حقیقت رسی : روشن نگاہی کے سبب علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی (روشن نگاہی حاصل کرنے والا حقیقت تک پہنچ جائے گا ) ( ۳ ) عبرت اندوزی : جس کے لئے علم و عمل آشکارا ہو جائے گا وہ عبرت سے آشنا ہوگا (۴ ) اگلوں کے طور طریقہ : جو عبرت سے آشنا ہوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو۔
عدل کی چار شاخیں ہیں:
( ۱ ) تہوں تک پہنچنے والی فکر : غور و تدبر ( اس کا ذریعہ ہے ) ( ۲ ) علمی گہرائی : غور و فکر کرنے والا علم کی گہرائیوں سے آشنا (ہوتا ) ہے (۳ ) فیصلہ کی خوبی : جو علم کی گہرائیوں میں اترا وہ فیصلہ کے سرچشموں سے سیراب ہوکر پلٹا (۴ ) عقل کی پائیداری : جس نے حلم و برد باری اختیار کی ، اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی۔
جہاد کی چار شاخیں ہیں:
( ۱ ) امر بالمعروف : جس نے امر بالمعروف کیا اس نے اہل ایمان کی پشت مضبوط کی ( ۲ ) نہی عن المنکر : جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے اہل کفر کو رسوا کیا (۳ ) تمام موقعوں پر راست گفتاری : جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا اس نے اپنا فرض ادا کردیا ( ۴ ) بدکرداروں سے نفرت : جس نے فاسقوں کو برا سمجھا اور اللہ کے لئے غضب ناک ہوا ( فاسقوں سے ربط و ضبط ، میل جول اور معاشرت کو پسند نہ کیا ) اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا ۔