حضرت مریم علیہا السلام

   

ڈاکٹر عاصم ریشماں
حضرت مریم علیہا السلام دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے والد عمران اپنے دور میں بنی اسرائیل کے معزز امام تھے اور ان کی والدہ حنۃ بنت فاقود ایک نیک پرہیزگار،عابد و زاہدہ خاتون تھیں اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کے اولاد نہیں تھی تو انہوں نے اللہ کے نام پر یہ نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں اولاد ہوئی تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیں گی۔ جب حضرت مریم علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو ان کی والدہ نے ان کا نام مریم رکھا۔ بہت سے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ ان کی پیدائش کے بعد کپڑے میں لپیٹ کر مسجد میں لے کر گئیں اور انہیں مسجد کے خداموں کے حوالے کیا تو ان کا آپس میں اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ کون اس کی کفالت کرے گا اس زمانے میں زکریا علیہ السلام نبی تھے انہوں نے فرمایا کہ میں اس کی کفالت کروں اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو مریم علیہا السلام کا نگران مقرر کیا۔
قرآن مجید میں حضرت مریم کے حوالے سے سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوا کہ:’’جب بھی زکریا علیہ السلام کمرے میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس روزی پاتے، کہا اے مریم، یہ تیرے لیے کہاں سے آیا؟ کہا وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ یقینا اللہ جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے‘‘۔(آل عمران:۳۷)
سورۃ الاعراف کے مطابق فرشتوں نے مریم علیہا السلام کو اس زمانے کی عورتوں پر منتخب کرلیا تھا اس طرح کہ بغیر باپ کے بچہ پیدا کرنے کے لیے منتخب کیا اور اسے خوشخبری دی کہ وہ بچہ شرافت والا نبی ہوگا۔ وہ لوگوں سے گہوارے میں کلام کرے گا اور اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائے گا۔اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الانبیاء میں حضرت مریم کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے فرمارہے ہیں:’’اور وہ پاک دامن بی بی، جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور خود اس کو اور اس کے لڑکے کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔‘‘(الانبیاء)
فرشتوں نے جب حضرت مریم کو یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا ہے اور انہیں پاکیزہ بیٹا عطا کرے گا جو باعزت مقدس نبی ہوگا اور معجزات کے ساتھ اس کی تائید کی جائے گی تو مریم علیہا السلام نے بن باپ کے بچے کی پیدائش پر تعجب کا اظہار کیا کیونکہ وہ شادی شدہ نہیں ہے تو فرشتوں نے انہیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جب کسی چیز کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ لہذا مریم علیہا السلام نے اللہ کے فیصلے کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا۔ اللہ کی طرف سے توجہ اور اس کے فیصلے پر سر کو جھکادیا اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہوگی۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو آپ ایک الگ دور افتادہ مقام پر آگئیں۔ اللہ کے حکم کے مطابق تازہ کھجوریں کھائیں اور پانی پیا اور حکم ہوا کہ اگر تو لوگوں کو دیکھے تو زبان، حال سے یا اشارے سے کہہ دے کہ میں نے رحمن کے لیے منت مانی ہے یعنی خاموش رہنے کی نذر مانی ہے اور جب مریم علیہا السلام اپنے بچے کے ساتھ اپنے علاقے میں واپس آئیں تو لوگوں نے کہا اے مریم بنت عمران یہ بچہ کہاں سے لائیں تو انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس سے بات کرو یہ تمہارے سوال کا جواب دے گا تو حضرت عیسیٰ جو کہ اس وقت چند دن کے دودھ پیتے بچے تھے بول اٹھے:’’کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور اس نے مجھے برکت والا بنایا ہے۔‘‘(مریم:۳۳)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے دور میں مبعوث ہوئے جب حکمت و طب کا فن عروج پر تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے ایسے معجزات عطا فرمائے جو بڑے بڑے حکماء و اطباء کی دسترس سے باہر تھے۔ کوئی ایسا حکیم نہیں ہوسکتا جو مادر زاد اندھے کو بینائی عطا کردے یا برص اور کوڑھ کے دائمی مریضوں کو شفا یاب کردے۔جب پروردگار نے عیسیٰ علیہ السلام پر ان براہین و دلائل کے ساتھ مبعوث فرمایا تو اکثر لوگ اپنے کفر و عناد اور گمراہی کی وجہ سے آپ کی اطاعت میں نہ آئے صرف چند افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت ہی آپ کی ممدو معاون بنی اور آپ کی بیعت کرتے ہوئے آپ کی مدد اور خیر خواہی کی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا شیطان دنیا کے ساتھ ہے اور اس کے مکرو فریب مال و دولت کے ساتھ ہیں اور اس کی تزئین و آرائش خواہش کے ساتھ ہے۔