حقوق انسانی ۔ Human Rights

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
رب العالمین کا ارشاد ہے : بے شک اﷲ تمہیں انصاف و احسان کا حُکم دیتا ہے ۔ ( سورۃ النمل ۹۰) عدل یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے ہر فرد پر لازم ہیں جس کے لئے وہ ہروقت کمربستہ رہے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر دوسرے افرادِ معاشرہ سے حُسنِ سلوک کرے ۔ اﷲ اﷲ یہ حُکم وصف صرف اور صرف دینِ حق اسلام میں ہی ہے ۔ حضور ﷺ کا عطاء کردہ ’’تصور احسان ‘‘ انسانی معاشرہ کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ اسلام میں حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بڑی اہمیت ہے جو بندوں کے آپسی معاملات کے بیچ ہیں اور جس کا حساب ہر بندے کو روزِ محشر میں چُکانا پڑے گا ۔
حضور ﷺ نے انسانی حقوق کا ایسا نظامِ حیات عطاء کیا ہے جس میں حقوق اور فرائض میں باہمی تعلق اور تناسب ہے ۔ سماجی علوم کے ماہرین انسانی حقوق کی بنیاد اس رائے پر قائم کرتے ہیں کہ تمدنی زندگی بسر کرنے سے پہلے انسان دین فطری حالت پر تھا اسی لئے اُسے ( سماجی جانور یا Social Animal ) بھی کہا جاتا ہے ۔ مگر خالقِ کائنات نے انسان کو ’عقلِ سلیم ‘‘ عطاء کرکے اُسے جانوروں سے مختلف کیا اور انسان ’’اشرف المخلوقات‘‘ کہلایا تاکہ وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرسکے ۔
چنانچہ ۱۰ ؍ ڈسمبر ۱۹۴۸؁ء کو اقوام متحدہ کے مجلس نے ایک ’’منشور حقوقِ انسانی (Human Rights Charter) ‘‘ بنایا جسے انسانی حقوق کے حوالے سے حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ منشور صرف اوراق کی زینت بن کر رہ گیا کیونکہ اقوام متحدہ طاقتور ممالک G-7 کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گیا ہے اور دُنیا میں ہورہے تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں پر ہورہے مظالم پر خاموش تماشائی ہے کیونکہ G-7 کے خود اختیار کردہ قوت (Vote Power) سے بے بس اور بے یار و مددگار ہے ۔ اپنے خلاف ہوئے کسی بھی قرارداد کو ویٹو (Veto) کردیتے ہیں۔
آج کے اس پُرفتن دور میں دُنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی طرح حقوق انسانی کی پامالی کررہے ہیں اور اپنی غیرانسانی حرکتوں کو بے بنیاد جوازات دیکر جائز قرار دیتے ہیں ۔ دیکھئے فلسطینی عوام پر صدیوں سے کیسا ظلم و ستم کیا جارہا ہے ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ چند مسلم ممالک بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یمن ، شام ، افغانستان ، پاکستان ، عراق و ایران میں لاکھوں انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ۔ اور وہ بھول گئے ہیں کہ چودہ سو برس پہلے ہمارے پیارے نبی ؐنے دُنیا کو کن انسانی حقوق سے روشناس فرمایا تھا ۔ اے مسلمان !
’’تیرے قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تجھے پاس نہیں‘‘
اقوام متحدہ کے منشور ’’انسانی حقوق ‘‘ کے باوجود آج کا انسان بھی ’’روسو ۱۷۵۰؁‘‘ کے عہد کے انسان کی طرح ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔
ایسا کیوں ؟ اس کا جواب اور حل اسلامی عہد میں پوشیدہ ہے جو چھٹی سے دسویں صدی تک پانچ سو سالہ عہد کی مرتب کردہ تاریخ کے صفحات سے غائب ہے۔ یہ حل محمدؐ کے پیش کردہ ’’منشورِ حقوق انسانیت ‘‘ پر مضمر ہے جو نقائص سے پاک ہے یہ منشور آج بھی وہ نتائج فراہم کرسکتا ہے جو دیگر انسانوں کی خودساختہ فکر فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ اس منشور کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں : احترام آدمیت ، تحفظِ جان و ملکیت ، تحفظ آبرو ، نجی زندگی کا تحفظ ، شخصی آزادی ، مذہبی آزادی ، نکاح میں انتخاب کا حق ، ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا حق ، سیاسی زندگی میں شرکت کا حق ، آزادیٔ اظہار رائے اور ضمیر ، مسلمانوں کے خصوصی حقوق ، غیرمسلموں کے خصوصی حقوق وغیرہ ۔
سنتِ مطہرہ کا ہمہ گیر پہلو یہ ہے کہ سیرتِ مصطفیؐ ایک تاریخی دلالت کی داستانِ عمل ہے جو قرآن حکیم کی تعلیمات اور احکامات پر مُبین ہے جس میں بِلا امتیاز عقائد ، رنگ و نسل تمام انسانوں کی جان انتہائی محترم ہے اور جس میں تحفظ جان پر جو زور دیا گیا ہے اُس کی نظیر کسی بھی مذہبی ، اخلاقی یا قانونی ادب یا لٹریچر میں نہیں ملتی ۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے : ’’فتحِ مکہ‘‘ کے موقعہ پر طاقت اور قدرت رکھنے کے باوجود رحمت للعالمین ؐ نے اپنے تمام مخالفین اور شدید ترین دُشمنوں کی جان بخشی کا حکم صادر فرمایا ‘‘۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپؐ نے فرمایا:’’ لوگو تمہارے خون اور مال ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردیئے گئے‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’خبردار بچو کو قتل نہ کرو ۔ بچوں کو قتل نہ کرو ‘‘۔ اور یہ فرمایا ’’جس نے کسی ذمی کا قتل کیا اﷲ تعالیٰ نے اُس پر جنت حرام کردی ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر نہ کسی کالے کو گورے پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں ماسوا تقویٰ کے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’مسلمانوں کا بیت المال محروم شہریوں کا ذمہ دار ہے ۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم ‘‘۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا : ’’لوگو ! اپنی بیویوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرتے رہو ۔آخر میں آپ ﷺ نے یہ فرمایا ’’لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ ایک قرآن اور دوسری میری سنت ، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ، گمراہ نہیں ہوں گے ‘‘ ۔ (سیرۃ ابن ہاشم ، طبری ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد، مسند احمداور متفق علیہ )
قرآن و سنت نے وہ صحیح بنیادیں فراہم کی ہیں جو عقیدۂ توحید ، عقیدۂ رسالت اور عقیدۂ آخرت پر مبنی ہے اور جو تمام انسانیت کے لئے قابل عمل ہیں۔ یہ منشورِ محمدیؐ اقوام متحدہ کے ناکام منشور کا جواب اور حل ہے ۔ مسجد کی پہلی صف میں اگر کوئی غریب بیٹھتا ہے تو اُسے اُٹھانے کا کسی بادشاہ کو بھی حق نہیں ۔ یہی تو اسلام کی خوبصورتی ہے اور حق مساوات کا مظہر ہے ۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے اپنے گھر کو صاف کریں ، اپنے معاملات کو سُدھارے ، اپنے گھر اور باہر ’’اسلامی حقوق انسانی ‘‘ کا پاس رکھیں اُس پر عمل کریں اور پھر دوسروں سے شکوہ کریں اور عالم انسانیت کے لئے رحمت بن کر اُبھریں ۔