’’حُجّوا قَبْلَ أَنْ لَا تَحُجّوا‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
(گزشتہ سے پیوستہ ) یہاں سے فارغ ہوکر اب چاہِ زمزم کی طرف بڑھے جس کی صحیح اور مستند روایات سے سبھی بخوبی واقف ہیں ۔ آبِ زمزم کی فضلتیں اور برکتیں احادیث صحیحہ میں بکثرت ملتی ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ ہے : ’’ :‏‏‏‏ مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهٗ ‘‘ یعنی زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہ مقصد پورا ہوگا ۔ روایت میں حضور اکرم ﷺ کی زبانِ مبارک سے منقول ہیکہ ’’دنیا میں بہترین پانی زمزم ہے ‘‘ ۔ حضور ﷺ کو یہ پانی بہت مرغوب تھا ۔ امام شافعیؒ ، عبداﷲ بن مبارک ؒ اور علامہ حافظ ابن حجر اپنا اپنا تجربہ لکھتے ہیں کہ ہم نے جس غرض کے لئے پیا وہ پورا ہوا ۔
آبِ زمزم پیتے وقت یہ دُعا پڑھتے جائیں : ’’اے اﷲ ! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں کام آنے والا علم ، فراخی کے ساتھ روزی اور ہر بیماری سے شفاء ‘‘ آبِ زمزم کی مستقل کرامت یہ ہے کہ برسہا برس سے چلا آرہا ہے اور خراب نہیں ہوتا ۔ جاپانی سائنسدانوں نے آبِ زمزم پر بڑی ریسرچ کی ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر آبِ زمزم کے دو قطرے بھی کسی عام پانی میں ملادیئے جائیں تو اُس کی نوعیت بدل جاتی ہے !
حضرت ہاجرہ علیہا السلام صفا و مروہ کے سات پھیرے کرنے پائی تھیں کہ شیرخوار نورِ نظر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر نظر پڑی تو دیکھا کہ آپؑ کی ایڑیوں کے نیچے سے پانی کا چشمہ اُبلنے لگا اور صدیقہ کی سعی ختم ہوگئی ۔ بس اس سعی کی یادگار آج تک قائم چلی آرہی ہے ۔ اﷲ والوں اور اﷲ والیوں کا مرتبہ ذرا دیکھئے کہ طالب خود اس راہ میں مطلوب بن جائے ! بی بی ہاجرہؑ نے زندگی میں ایک بار سات پھیرے کئے تھے ۔ اُس کی یادگار میں پچھلے ساڑھے چودہ سو برس میں کتنے کروڑ ، کتنے ارب لوگ اسی راہ پر اپنے دربار کی حاضری دینے والوں سے پھیرے کرائے جاچکے ہیں ۔ دُنیا کا کوئی ریاضی داں حساب لگا سکتا ہے کہ قیامت تک اِن پھیروں اور پھیرے کرنے والوں کی تعداد کہاں تک پہنچے گی ؟ صدیاں گذر چکی ہیں اور بی بی ہاجرہؑ کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا تانتا ہے کہ کسی کے توڑے نہیں ٹوٹتا ۔ سبحان اﷲ ! سعی مذہب شافعی میں فرض ہے اور رُکنِ حج ہے ۔ بغیر سعی کے اُن کے ہاں حج نہیں ہوگا ۔ فقہ حنفی میں واجب ہے اور ایک نہایت مؤکدہ سنت ہے ۔ سعی کے دوران حضورِ قلب سے دُعا و مناجات میں لگے رہنا چاہئے ۔ سعی کے لفظی معنیٰ تیز چلنے اور دوڑنے کے ہیں۔
’’حطیم خانۂ کعبہ ‘‘: خلیل اﷲ کے بنائے ہوئے کعبہ میں چھوڑی ہوئی زمین بھی کعبہ کے اندر تھی ۔ حطیم کے لفظی معنی ٹکڑے کے ہیں چونکہ یہ زمین خانہ کعبہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اس لئے اس کا نام بھی حطیم پڑ گیا ۔ قریش نے اپنے زمانے میں عمارت کعبہ کی جب تجدید کرنی چاہی تو کچھ سامان کم پڑگیا ۔ رائے یہ قرار پائی کہ اتنا حصہ چھوڑ دیا جائے ، اس میں بھی اﷲ تعالیٰ کی مصلحت تھی ۔ حطیم میں نماز پڑھنا خانۂ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے برابر ہے جو ہر عام و خاص کے نصیب میں آتی ہے ! طوافِ کعبہ کے ساتھ اس کا بھی طواف ہوتا رہتا ہے ۔ حطیم کا دوسرا نام حجر بھی ہے ۔ ایک سونے کا پرنالہ جسے ’’ میزابِ رحمت ‘‘ کہتے ہیں کعبہ کے شمال سِمت میں چھت کے اوپر نصب ہے ۔ برسات کا پانی اسی میں سے حطیم میں گرتا ہے جس میں اپنے جسم کو تر کرنے کی خوش نصیبی کے لئے عقیدت مند عازمین حج و عمرہ کا اژدھام رہتا ہے ۔ عام دنوں میں ’’میزابِ رحمت ‘‘ کے نیچے کھڑے ہوکر دُعا مانگنا قبولیت کا ضامن ہے ۔
حجاج کرام سے ادباً گذارش ہے کہ اپنے مناسک حج کی حکمتوں اور عظمتوں کو اچھی طرح جانتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنواریں اورتاحیات اپنے نام سے لگے ’’الحاج ‘‘ کے خطاب کا پاس رکھیں تاکہ خاتمہ بالخیر و ایمان ہو ۔ ان شاء اللہ
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا