حکومت کی ناکامی ‘ اپوزیشن سے سوال

   

وزیر داخلہ امیت شاہ تقریبا تین ماہ بعد ایک بار پھر سیاسی و عوامی حلقوں میںسرگرم ہوگئے ہیں۔ جب سارا ملک کورونا کی لڑائی میں مصروف تھا اور جدوجہد جاری تھی امیت شاہ آرام کر رہے تھے تاہم اب جبکہ بہار اور پھر آئندہ سال مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے امیت شاہ سرگرم ہوگئے ہیں۔اس سے ان کی اور حکومت کی ترجیحات واضح ہوجاتی ہیں۔ تاہم ایک بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بی جے پی اور حکومت دونوں کا انداز سب سے جداگانہ ہے ۔دنیا کی ہر جمہوریت میں سوال حکومتوں سے ہوتے ہیں۔ اس کے کام کاج پر جواب طلب کیا جاتا ہے ۔ اس سے حساب مانگا جاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کورونا سے لڑائی کے معاملے میں حکومت کی ناکامی کا اعتراف تو کرر ہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے اقدامات ناکافی ہوگئے ہیں۔ حکومت سے غلطی بھی ہوئی ہے لیکن وہ سوال اپوزیشن سے کر رہے ہیں۔ جب خود امیت شاہ کو یہ اعتراف ہے کہ حکومت سے ناکامی ہوئی ہے اور غلطی ہوئی ہے تو سوال اپوزیشن سے کس بنیاد پر کیا جارہا ہے ؟۔ جمہوریت کا اصول ہی یہی ہے کہ حکومت کام کرے اور اپوزیشن اس پر نظر رکھے اور اس سے اس کی ناکامیوں اور خامیوں پر سوال کرے۔ امیت شاہ کے پاس شائد جمہوریت کے معنی دوسرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے سوال کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے کورونا کی لڑائی میں کیا کیا ہے ؟۔ ملک کی جن ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ہیں انہوں نے اپنے اپنے طور پر کورونا سے لڑائی میں مثالیں قائم کی ہیں۔ دہلی ‘ کیرالا ‘ جھارکھنڈ ‘مہاراشٹرا اور خود مغربی بنگال میں ریاستیں اپنے محدود وسائل اور مسائل کے باوجود کورونا سے لڑ رہی ہیں اور غریب عوام کی توقعات سے زیادہ مدد بھی کی جا رہی ہے ۔ دواخانوں کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے جبکہ مرکزی حکومت نے سوائے عوام کو گمراہ کرنے والے اعلانات کے اور کچھ نہیں کیا ہے اور جو اعلانات بھی کئے گئے ہیں ان کی تفصیل تک بھی عوام کے سامنے پیش کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

امیت شاہ اپوزیشن سے سوال کر رہے ہیں کہ اس نے کیا کیا تو کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے قبل از وقت حکومت کو خبردار کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن بی جے پی حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے اس میں ٹال مٹول سے کام لیا اور آج خمیازہ ملک اورعوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے کئی تجاویز عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے حکومت کو پیش کی گئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کسی اپوزیشن کے وجود ہی کو برداشت کرنے تیار نہیں ہے اس کی تجاویز کو قبول کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ کانگریس کی حکومتوں سے گذشتہ 70 سال کا حساب مانگنے والی بی جے پی حکومت اپنے محض چھ سال کا حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ چھ سال تو چھوڑئے صرف 20 لاکھ کروڑ کے پیاکیج کا حساب عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جارہا ہے ۔ پرائم منسٹر کئیر فنڈ کی تفصیلات عوام میں لانے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ یہی وہ بی جے پی ہے اور یہی اس کے قائدین ہیں جو کانگریس سے ہر مسئلہ پر حساب مانگنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ یہی وہ وزیر اعظم مودی ہیں جو چین کو آنکھیں لال کرکے جواب دینے کی وکالت کرتے تھے لیکن آج چین کے جارحانہ عزائم پر آنکھیں لال کرنے اورسرجیکل اسٹرائیک کرنے کی بجائے بات چیت کی راہ اختیار کرنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بی جے پی قائدین اور حکومت کے ذمہ داران کے دوہرے معیارات کی واضح ترین مثال ہے ۔

آج کورونا انتہائی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ماہرین کے بموجب اب بھی اس کا عروج نہیں ہوا ہے اور آنے والا وقت زیادہ مشکل والا ہوسکتا ہے ۔ ملک کے مائیگرنٹس آج بھی اپنے وجود اور بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں اور حکومت عملا ان سے لا تعلق ہے ۔ جب کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے انہیں بسیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تو اس پر بھی سیاست کی گئی اور بسوں کی تحقیقات کے نام پر اس پیشکش کو مسترد کردیا گیا ۔ امیت شاہ نے جب حکومت کی ناکامی اور غلطی کا اعتراف کرلیا ہے تو انہیں حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر کی حیثیت سے ملک کے عوام سے معذرت خواہی کرنی چاہئے اور اپوزیشن سے سوال کرنے کی بجائے اپنے مستقبل کے منصوبوںکو اپوزیشن کے مشورہ اور اعتماد سے تیار کرنا چاہئے ۔