حیدرآباد میں قتل و غارت گری

   

حیدرآباد ایک تاریخی اور اہمیت کا حامل شہر ہے ۔ اس شہر کی ایک تاریخ رہی ہے ۔ یہاں امن و ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ یکجہتی سارے ملک کیلئے مثال رہی ہے ۔ حیدرآباد کو ملک کے محفوظ شہروں میں بھی شمار کیا جاتا رہا ہے تاہم حالیہ عرصہ میں شہر کی یہ شناخت متاثر ہونے لگی ہے ۔ جہاں حیدرآباد کو انفارمیشن ٹکنالوجی کے مرکز کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور یہاںکی ترقی مثالی قرار دی جانے لگی ہے وہیں قتل و غارت گری کے واقعات شہر کے لا اینڈ آرڈر پر سوال پیدا کرنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پوری طرح قابو سے باہر ہوگئی ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہاں مجرمین کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور وہ جب چاہے جس کا چاہے قتل کرنے لگے ہیں۔ یہ قانون کے خوف کے کم ہونے کی علامت ہے کہ لوگ قانون کی پرواہ کئے بغیر کسی کی بھی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے لگے ہیں۔ معمولی باتوں پر جھگڑے اور کسی کو جان سے ماردینے کا کسی بھی مہذب سماج میں کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ اس کو قبول کیا جاسکتا ہے ۔ اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں اور معمولی باتوں کو طوالت دینے سے گریز کرنے کی ہمیشہ سے وکالت کی جاتی رہی ہے ۔ تاہم شہر کا نوجوان طبقہ خاص طور پر بے راہ روی کا شکار ہونے لگا ہے ۔ سوشیل میڈیا کے منفی اثرات بھی ان پر مرتب ہونے لگے ہیں۔ ان کی تربیت میں کمی بھی واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کی جان لینے کو گناہ کبیرہ سمجھنے کی بجائے لوگ اسے معمولی سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے نتیجہ میںشہر کی امیج متاثر ہونے لگی ہے ۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں شہر میں پانچ افراد کا قتل کردیا گیا ہے ۔ تین وارداتیں ہوئی ہیں اور دو وارداتیں ایسی ہیں جن میں دوہرے قتل کئے گئے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو معمول کے واقعات یا معمولی سمجھ کرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ کیا جانا چاہئے ۔ اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹ لیتے ہوئے سماج میں ہم آہنگی ور صبر و تحمل کی فضاء کو عام کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ پولیس کی جانب سے بھی خاطیوں اور قاتلوں کے خلاف اس طرح کی کارروائی کی جانی چاہئے کہ جرائم پیشہ افراد کے حوصلے پست ہوجائیں۔
جہاں نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور سماجی تنظیموں کو اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے وہیں اصلاح معاشرہ کی تحریک بھی شروع کی جانی چاہئے ۔ قتل و غارت گری کے واقعات کسی ایک فرقہ تک محدود نہیں ہیں ۔ کسی ایک مدہب تک محدود نہیں ہیں۔ اس میں ہر طبقہ اور فرقہ کے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ انسانی جانوں کے اتلاف کو محض ایک کھیل سمجھ لیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے پلک جھپکتے میں سر عام انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ زیادہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ آج کے انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں جبکہ شہر کے تقریبا ہر چوراہے اور ہر بڑی سڑک پر کیمرے نصب ہیں اور ان کے ذریعہ قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کا بچنا مشکل ہوتا جارہا ہے اس کے باوجود قتل و غارت گری کے واقعات میں کسی طرح کی کمی نہیں آرہی ہے ۔ ایسے واقعات سماج کیلئے ایک کلنک اور دھبہ ہیں۔ ان کا تدارک ہر ذی شعور اور امن پسند شہری کا فریضہ ہونا چاہئے ۔ جو کام پولیس کا ہے اسے کرنا چاہئے ۔ خاطیوں کو عبرتناک سزائیں دلانے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جانی چاہئے ۔ تحقیقات کو انتہائی جامع اور کارکرد انداز میں پورا کرتے ہوئے عدالتوں سے سزائیں دلانیچ اہئیں اور ساتھ ہی اس طرح کے واقعات کا تدارک کرنے کیلئے سماج میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ کو جرائم کے چنگل سے دور رکھنے کیلئے مہم چلانے اور ان میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ ہے ۔
نوجوان کسی بھی قوم یا معاشرہ کا مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ ملک اور قوم کا اثاثہ کہلاتے ہیں ۔ اس کے باوجود اگر وہ جرائم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہو رہے ہیں تو یہ صرف ان کے یا ان کے افراد خاندان کیلئے فکر اور تشویش کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سارے معاشرہ کیلئے اور سارے سماج کیلئے انتہائی فکر و تشویش کی بات ہے ۔ اس پر جہاں پولیس کو حرکت میں آنا چاہئے وہیں سماج میں اصلاح کی کوششیں کرنے والی تنظیموں اور اداروں کو بھی شعور بیدار کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ سماج کا سدھار اور بہتری جہاں پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے وہیں سماجی اور فلاحی تنظیموں کا بھی اس میں ذمہ دارانہ رول ہونا چاہئے ۔