خاتم الانبیاء سے سب سے زیادہ مشابھت رکھنے والے حضرت امام حسنِ مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

   

چشمِ فلک نے روئے زمین پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے خلقت اور اخلاق میں جگر گوشۂ شہزادی کونین سیدنا امام حسنِ مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مشابہ کسی فردبشر کو نہیں دیکھا ۔ آپؓ کا پرنور چہرہ پر جلال قد و قامت جمالِ نبوت کی یاد تازہ کردیتی ۔ آپؓ کی پرہیبت و پروقار مجلس ، بارگاہ رسالت کا حسین نظارہ پیش کرتی ۔ آپؓ کے قدسی صفات ، صفاتِ نبوت کے آئینہ دار ہیں ۔ حضرات صحابہ کرام بالخصوص شیخین کریمین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ نیز سیدنا عثمان غنی ؓ اور سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے حددرجہ آپؓ کا احترام کیا ۔ بلاشبہ آپؓ کی محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ حسنین کریمین کی محبت کے بغیر محبتِ رسول ؐ کا تصور ہی نہیں ۔

سیدنا امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اور خاتون جنت سیدتنا فاطمۃ الزھراء کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپؓ کی ولادت ۱۵؍ رمضان المبارک ۳ھ؁ کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے آپ کا نام ’’حسنؓ‘‘ رکھا اور کنیت ’’ابومحمد‘‘ تجویز فرمائی ۔ جبکہ اس نام کے آپؓ کے کوئی فرزند نہیں رہے ۔ حضرت اُم الفضلؓ نے آپؓ کو اپنے فرزند حضرت قثم کے ساتھ دودھ پلایا۔ ساتویں دن آپؓ کا عقیقہ کیا گیا ۔ آپؓ نبی اکرم ﷺ کے چہیتے نواسے ہیں۔ امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کی آپؓ نے کہا کہ کوئی بھی نبی کریم ﷺ سے حسن بن علی ؓسے زیادہ مشابہ نہیں تھا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت براء بن عازب سے روایت کی ۔ انھوں نے کہا : میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا جبکہ حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپؓ کے دوش مبارک پر تھے اور فرمارہے تھے ’’اے اﷲ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو ان سے محبت فرما ‘‘۔
حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : میں نے رسول اﷲ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا جبکہ حسنؓ آپ کے پہلو میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺلوگوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک مرتبہ آپ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ یقینا یہ میرا بیٹا سردار ہے ان کے ذریعہ سے اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں اصلاح فرمائیگا ۔ (بخاری )

حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انھوں نے کہا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے حسن و حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں فرمایا وہ دونوں میرے پھول ہیں۔ ( بخاری )

امام ترمذی نے ابوسعید خدریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : حسن اور اور حسین نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں۔
امام حسن رضی اﷲ عنہ کی ابتدائی زندگی اپنے نانا جان اور والدین کے سایۂ عاطفت میں گزری ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میں حضرت امام حسنؓ کی صغرسنی کا زمانہ تھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حددرجہ اہلبیت اطہار کا لحاظ فرماتے ۔
حضرت عمرفاروق نے اپنے عہدخلاف میں دیوان ( دفتر) اور بیت المال کو قائم فرمایا اور مسلمانوں کے لئے علی قدر مراتب سالانہ وظیفے مقرر کئے ۔ جنگ بدر میں شریک صحابہ کرام کو سب سے زیادہ وظیفے مقرر ہوئے ۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ اگرچہ جنگ بدر کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تاہم حضرت عمرؓ کے عہد میں آپ دونوں بھی جنگ بدر میں شریک صحابہ کرام کے برابر پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ پاتے تھے جبکہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نیز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ بھی اتنا ہی تھا ۔ اس دیوان میں پہلا نام حضرت عباسؓ کا تھا ، دوسرا حضرت علی مرتضیٰؓ اور تیسرا حضرت حسن مجتبیٰ ؓ کا۔ ( البلاذری: فتوح البلدان ، ذکرالعطاء فی خلافۃ عمر بن الخطاب ؓ )
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا برتاؤ بھی حضرت حسنؓ کے ساتھ شفقت آمیز تھا ۔ ان کے عہد میں آپؓ جوان ہوچکے تھے اس لئے جہاد میں شریک ہوئے ۔ چنانچہ ۳۰؁ ھ میں حضرت سعید بن العاس کی سرکردگی میں طبرستان پر فوج کشی ہوئی تو حضرت حسنؓ نے بھی اس میں حصہ لیا۔

جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنے کا طوفان اُٹھا تو حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لئے متعین کردیا ۔ اس حفاظت میں حضرت حسنؓ زخمی بھی ہوئے، باغی اس دروازے سے داخل نہ ہوسکے جہاں حضرت حسنؓ کا پہرہ تھا۔ تاہم وہ ایک دوسری دیوار پھاندکر داخل ہوئے اور حضرت عثمانؓ کو بہ حالت تلاوتِ قرآن پاک شہید کردیا گیا۔ (السیوطی: تاریخ الخلفاء)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کے بعد ہی جنگ جمل پیش آئی ۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے حضرت امام حسنؓ کو کوفہ روانہ کیا تاکہ امداد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں۔ چنانچہ امام حسنؓ نو ہزار چھ سو پچاس کوفیوں کو لیکر اس مقام پہنچے جہاں حضرت علیؓ مقیم تھے ۔ معرکۂ صفین میں آپ سالار میمنہ تھے ۔ اس معرکہ میں حضرت علی مرتضیٰ کے دونوں صاحبزادے شریک ہوئے ۔

رمضان ۴۰ ھ ؁ میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت ہوئی ۔ حضرت علیؓ کی تجہیز و تدفین سے فراغت کے بعد کوفے کی جامع مسجد میں حضرت حسنؓ کے لئے بیعت خلافت ہوئی ۔ بیعت کے چار ماہ بعد حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ اپنے اپنے لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے ، بعد ازاں نانا جان کی اُمت کا خون بچانے کی خاطر امام حسنؓ نے صلح کی پیشکش کی ورنہ آپ کے لشکر جرار سے مقابلہ کرنا آساں نہ تھا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی صادق ہوئی اور دو مسلم جماعتوں میں اصلاح ہوئی اور اس سال کی ’’ عام الجماعۃ ‘‘ سے شہرت ہوئی ۔
امام حسنؓ سے مروی احادیث و روایات کے علاوہ علماء نے آپ کے اشعار ، خطبات ، مکاتیب اور کلمات کو بکثرت نقل کیا ہے ۔
امام حسنؓ نے خواب دیکھا کہ آٖپ کی آنکھوں کے درمیان ’’قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب سے یہ خواب ذکر کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اگر یہ خواب سچا ہے تو آپؓکی وفات کے لئے کم دن باقی رہے گئے ہیں چنانچہ چند دن بعد ہی آپؓ کا وصال ہوا ۔ تاریخ الخلفاء کے مطابق آپؓ کو یزید کی ایماء پر آپؓ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث نے زہر دیا تھا ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق ۵۰ ھ ؁ میں آپؓ کی شہادت ہوئی ۔