خان بہادر شادؔ عظیم آبادی

   

ڈاکٹر امیر علی

عظیم آباد (پٹنہ) بہار کا قدیم اور زر خیز علاقہ ہے۔ عہد قدیم سے ہی علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ رہا ہے ۔ یہاں سے ہر دور میں علماء شعراء اور اہل کمال پیدا ہوئے اور اپنے فکر و فن اور خدا داد صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب میں گراں بہا خدمات انجام دیں اور صوبہ بہار کا نام سارے ہندوستان میں روشن کردیا ۔ ان ہی نام آور ہستیوں میں اردو زبان و ادب کے نامور شاعر خان بہادر شاد عظیم آبادی کا شمار ہوتا ہے ۔ شاد غزل کے منفرد شاعر و مفکر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی مگر انہوں نے دوسری اصناف پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ شادؔ نے اپنی غزلوں میں عارفانہ اور عاشقانہ موضوعات پر بھی بڑے ہی پرسوز اشعار کہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے کلام پر تصوف کی گہری چھاپ ہے ۔ شاد کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا وسیلہ نہیں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ ان کے اشعار حیثیت کے رازداں معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ شاد فرماتے ہیں ۔
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
دل مضطر سے پوچھ ائے رونقِ بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپاکے
بھری محفل سے اُٹھوایا گیا ہوں
شادؔ نے اپنی شخصیت اور شاعری سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ہے ۔ انہوں نے زبان کے دریا بہائے ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں اور رباعیات میں اے بے شمار اشعرا تخلیق کئے ہیں جو پڑھتے ہی روح کو تڑ پاتے اور قلب کو گرماتے ہیں۔ ان کے اشعار میں تخیل کی بلندی ، بیان کی تا ثیر و روانیٔ ، نغمگی و نیرنگی، سوز و گداز ، فصاحت و بلاغت اور حکیمانہ طرز ادا موجود ہے ۔ ایک رباعی کے چند مشہور اشعار جس میں پر کیف و پر لطف خمریہ رباعیات ہیں جس سے حسن طلب ، نشاط و سرشاری حافظ و خیام کی یاد تازہ کرتی ہے ۔
کیوں بات چھپاؤں رند مئے نوش ہوں میں
د نیا کیسی دین فراموش ہوں میں
حسرت ہے گروں تو پائے ساقی پہ گروں
جب خوب شراب پی کے مدہوش ہوں میں
شادؔ کا اصل نام خان بہادر سید علی محمد ہے ۔ وہ اپنے علاقے میں سید صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ ان کی ولادت 1846 ء میں مجلہ پورب دروازہ عظیم آباد (پٹنہ) بہار میں ہوئی۔ ان کے والد سید عباس مرزا اور دادا سید تفضل حسین ، نانا نواب مہدی علی خان بڑی خوبیوں کے مالک تھے ۔ ان کا شمار اپنے وقت کے ذی رتبہ ، صاحب ثروت اور عالی مرتبت لوگوں میں ہوتا تھا ۔اعلیٰ اخلاق ، زہد و تقویٰ ، مروت و ہمدردی اور خدمت خلق ان کے خاص جوہر تھے اور اپنے علاقے میں لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ شاد کے جد اعلیٰ سادات حسینی الحسنی تھے اور وہ خود حضرت امام زین العابدینؓ کی اولاد میں سے تھے ۔ شاد کا گھرانہ علمی و مذہبی تھا ۔ خودداری ، مروت ، ہمدردی ، رواداری اور خدمت خلق ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ اس خاندان کے دو بزرگ اپنے وقت کے نامور بادشاہ بھی گزرے ہیں جن میں سید حسین فیروزی (شیراز کے ) اور کبیر المشائخ (ہرات) کے حکمراں گزرے ہیں ۔ سبھی نے اپنے علم و فضل سے عوام کے دلوں پر کامیابی حکمرانی کی تھی اور بہت نام کمایا تھا ۔ شاد ایک بڑے خوش نصیب انسان تھے جنہیں وراثت میں ایک شاندار علمی ، ادبی اور تہذیبی اور عظیم خاندانی پس منظر نصیب ہوا ۔ شاد اپنے ایک مکتوب بنام ’’عمادالملک بلگرامی‘‘ میں اس طرح رقمطراز ہیں ۔
’’میری نانی نواب سراج الدولہ بہادر (شہید) فرما نروائے بنگال و بہار کی حقیقی نواسی کی بیٹی اور نواب اسماعیل قلی خان صوبہ دار بھاگلپور و منگیر جو نواب سراج الدولہ بہادر کے حقیقی پھوپی زاد بھائی تھے جو میری نانی کے پر دادا تھے ۔ ‘‘ (شاد کی کہانی خود شاد کی زبانی)
یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف عظیم خاندانی پس منظر اور وراثت انسان کو شہرت نہیں بخشتی اور اس کو حاصل کرنے کیلئے انسان کو دن رات ایک کرنے پڑتے ہیں اور قدرت بھی اپنے خزانے یوں ہی نہیں لٹاتی اور جو لوگ وقت کی گرم ہواؤں میں بھی اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہیں ، ان کو یہ خزانے ہاتھ آتے ہیں۔ شادؔ کا ننھیال اور دادھیال کا بڑا ہی متمول تھا اور مہمان نوازی میں شہرت رکھتے تھے اور ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان اور علمی و ادبی شحصیتوں کا گھر پر آنا جانا رہتا تھا اور ساتھ ساتھ ادبی محفلوں کا بھی اہتمام ہوتا تھا ۔ شاد کو بھی مولانا حسرت موہانی کی طرح بڑا فخر اور ناز تھا کہ ان کے گھر کی عورتیں پڑھی لکھی اور با شعور ہیں اور ادب کا اعلیٰ مذاق رکھتی تھیں۔ شاد کے والدین نے شاد کی تعلیم و تربیت کے لئے اس دور کے نامور اساتذہ و عالم دین سید مہدی شاہ اور مشہور عالم دین قطب شیخ محمد علی لکھنوی کے سپرد کیا ۔ اس دور کے حساب سے شاد نے اردو ، عربی ، فارسی ، علم حدیث و فقہ ، صرف و نحو اور دوسرے علوم پر دسترس حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شعری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اس دور کے مشہور عالم دین اور دانا میر سید محمد فیض آبادی کا بڑا ہاتھ ہے ۔
شادؔ نے اپنی شاعری کی ابتداء (9) سال کی عمر سے کی تھی اور کامیاب شعر کہے ہیں ۔ ا س کے علاوہ شاد اپنے اشعار ادبی مشاعروں میں سنانے لگے ۔ جب شاد نے ایک طرحی مشاعرے میں اپنا ایک مصرعہ سنایا تو ہر طرف دھوم مچ گئی اور لوگوں نے ان کے کلام کو بہت پسند کیا اور خوب داد دی اور ان کی شہرت ہر طرف پہنچ گئی ۔ وہ مصرعہ یہ تھا ۔
’’سامنے تحریر کے حاجت نہیں تقریر کی‘‘
اس طرح شادؔ نے اپنی شاعری کا آغاز کیا مگر ان کے گھر والے چاہتے تھے کہ شاد پہلے (عراق) کی سیاحت کریں اور مذہبی امور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور بعد میں شعر و شاعری کریں مگر شاد عراق نہ جاسکے بلکہ یہیں رہ کر مشق سخن جاری رکھا اور اردو زبان و ادب اور شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا اور اس دوران ان کا نام سید الفت حسین فریاد کے تلامذہ کی فہرست میں شامل ہوگیا اور انہوں نے ہی شاعری میں شاد تخلص تجویز کیا تھا ۔ شاد کو فارسی زبان پر کافی عبور حاصل تھا اور اہلِ ایران بھی ان کی زبان دانی کا لوہا مانتے تھے ۔ شاد کی ذہانت اور ذکاوت خداداد تھی ۔ تذکروں میں ان کی ذہانت اور ذکاوت کے کئی دلچسپ واقعات درج ہیں۔ ان کی بیماری کا ایک قصہ اس طرح درج ہے کہ ’’ایک مرتبہ بچپن میں شاد علیل ہوگئے اور علاج کیلئے حکیم مولوی غلام جیلانی جو پٹنہ بہار میں مقیم تھے، رجوع ہوئے اور جب حکیم صاحب نے شاد کا حال چال پو چھا اور آنے کی وجہ دریافت کی اور شاد سے کہا کہ اپنا حال نظم میں بیان کریں۔ حکیم صاحب کے اصرار پر شاد نے اس طرح فرمایا تھا ۔
بھوک سے پیٹ میں فشار بھی ہے
درد بھی سر میں ہے بخار بھی ہے
دنیا کی بے ثباتی اور فانی کا تذکرہ اردو کے سبھی شاعروں کے ہاں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پند و موعظمت پر شعراء نے کئی اشعار تخلیق کئے ہیں۔ دنیا ایک ناپائیدار فانی ہے اور اس سے دل لگانا نادانی ۔ انسان اس دنیائے فانی میں چند روزہ مہمان ہے اور آخرت اس کا مستقل ٹھکانہ ہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے حکمراں جن کو ا پنی دولت ، طاقت اور ثروت پر بڑا فخر و ناز تھا اور اکڑتے تھے ان کا دنیا سے نام و نشان مٹ چکا ہے اور وہ کسمپرسی کے عالم میں قبروں میں سو رہے ہیں ۔ دنیا کی ہستی ایک حباب کی مانند ہے ۔ شاد نے حباب کے بننے اور اس کے ٹوٹنے کا تدکرہ اپنی رباعی کے اشعار میں اس طرح کیا ہے ۔ ’’حیات جاوداں میں فرق بھی آئے تو آنی ہو’’کہہ کر ا پنے کلام میں ندرت پیدا کردی ہے ۔ (قطرے کا دریا میں ملنا ، قطر ے کا فنا ہوجانا ہے ) ۔ چنانچہ شاد اس طرح رقمطراز ہیں۔
نہ بے چینی نہ بے تابی کوئی تربت کے سونے میں
بڑے آرام سے چپکے پڑے ہیں ایک کونے میں
کہاں پھیکا ہے لاکر روح نے اس جسم خاکی کو
یہی ہوتا ہے طاقت سے زیادہ بوجھ ڈھونے میں
شادؔ نے اپنی ساری زند گی اردو زبان و ادب اور شاعری کے فروغ میں صرف کردی اور ادب میں وہ ایک گوہر یک دانہ کہلائے۔ وہ اردو غزل کے منفرد اور مایہ ناز شاعر ، ادیب اور فلسفی ہیں ۔ ان کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ کئی شاہکار رباعیاں بھی ہیں جس میں عارفانہ و متصوفانہ ، فلسفیانہ ، اخلاقی و اصلاحی ، عشقیہ ، خمریہ اور المیہ رباعیات بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ نظم و نثر میں کئی تصانیف ہیں جو شاد کے فکر و فن کی دلیل ہیں۔ شاد نے اپنی رباعیوں میں بڑے ہی پر اثر اور پر کیف اشعار تخلیق کئے ہیں جس میں جدتِ خیالی ، ندرت فکر اور گہرائی و گیرائی موجود ہے ۔ وہ اعلیٰ لسانی شعور اور ارفعیٰ صلاحیتوں کے ما لک ہیں اور اسی نسبت سے وہ اپنے آپ کو مشرق کا چمکتا ہوا تارا تصور کرتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
روشن ہے کہ ائے شاد سخن آرا میں ہوں
سمجھو نہ مجھے غیر تمہارا میں ہوں
مغرب میں شعاع پڑھ کے پہنچے گی ضرور
مشرق کا چمکتا ہوا تارا میں ہوں !
شادؔ نے اپنی رباعیات سے اردو شاعری کو بڑے عمدہ اشعار دیئے ہیں۔ ان کی رباعیات اور خمریات پر بھی کئی شاہکار اشعار ہیں۔ خمریاتی شعراء میں سلطان محمد قلی قطب شاہ ، عمر خیام ، حافظ ، ظہور منصوری نگاہ بہت مشہور ہیں۔ شاد نے بھی اس فن کو کمال کی بلندی تک پہنچا دیا اور اس میدان میں خاص جوہر دکھائے ہیں۔ چنانچہ شاد اس طرح فرماتے ہیں اور ان کے اشعار مئے عرفان سے متعلق ہیں۔
ساقی کے کرم سے فیض یہ جاری ہے
یا پیر خرابات کی غم خواری ہے
صف توڑ کر بٹ رہی ہے رندوں میں شراب
معلوم نہیں کہ میری کب باری ہے
کیوں بات چھپاؤں رندِ مئے نوش ہوں میں
دنیا کیسی دین فراموش ہوں میں
حسرت ہے گروں تو پائے ساقی پہ گروں
شاد کو شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔ 1874 ء میں ایک ہفتہ وار اردو اخبار ’’نسیم سحر‘‘ کے نام سے مطبع صبح صادق پٹنہ بہار سے نکلتا تھا ۔ شادؔ نے اس اخبار کے اعزازی ایڈیٹر کی حیثیت سے شاندار خدمات انجام دیں اور یہ اخبار سات برس تک جاری رہا ۔ شادؔ کی شحصیت اور شاعری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فن کو ذریعہ معاش نہیں بنایا اور نہ انہیں دولت ، ثروت اور شہرت کی ہوس تھی ۔ انہوں نے خاموش رہ کر اردو زبان و ادب اور شاعری کی بے پناہ خدمات انجام دی اور اپنے کلام سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا ہے ۔ ایک جگہ شادؔ اس طرح فرماتے ہیں۔
کاٹی ہے ریاض میں جوانی میں نے
تا عمر بہت کہی کہانی میں نے
ناقدر زمانے تری پرواہ ہے کسے
افراط سے چھوڑی ہے نشانی میں نے
شادؔ نے طویل عمر پائی اور ان کے شاگردوں ، دوست احباب اور چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ۔ سبھی لوگ شاد کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے اوران کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ شب بیداری ، کتب بینی اور ریاضت کی وجہ سے شاد کی طبیعت بگڑنے لگی اور وہ بیمار رہنے لگے اور زندگی کے آخری ایام بڑی کشمکش اور سراسیمگی میں بسر ہوئے مگر اللہ رے پرہیز گاری خاندانی جاہ و وقار ، رکھ رکھاو اور روز مرہ معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا اور وقت کی گرم ہوائیں ان کے ارادوں کو بدل نہ سکیں ۔ اور ’’غربت میں‘‘ موت نے ’’ مینائے شاد‘‘ توڑ ڈالی اور وہ 8 جنوری 1927 ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ جب آپ کے وصال کی خبر عام ہوئی تو ہر طرف کہرام مچ گیا اور آپ کے وصال پر بلا لحاظ مذہب و ملت سبھی لوگوں نے آپ کی جدائی پر آنسو بہائے اور خراج پیش کیا اور آپ کی مغفرت کے لئے دعا کی اور ہزاروں سوگواروں کے بیچ آپ کے جسدِ خا کی کو حاجی گنج پٹنہ بہار میں سپرد لحد کردیاگیا ۔ شاد کے وصال کے وقت ان کا ا پنا شعر ان کی مبان پر جاری تھا ۔
آخر ہے عمر ضیق میں ہے دم بھی جان بھی
مردانہ باش ختم ہے یہ امتحان بھی