خندہ پیشانی

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
خندہ پیشانی کے لغوی معنی ہیں خوش مزاجی ، زندہ دلی ، خوش اخلاقی ، مسکراتا چہرہ وغیرہ وغیرہ جس کو مختلف صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے ’’لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا ، مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استفادہ کرنا اور اُن کی آؤ بھگت کرنا ، مشکل حالات کا اﷲ پر بھروسہ کرکے اُس کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا … ‘‘
خندہ پیشانی ، اسلامی طرزِ زندگی کے آداب کا ایک وصف ہے جو سیرۃ النبی ﷺ کا ایک درخشاں پہلو ہے ۔ آپؐ ہر ایک سے حتیٰ کہ دُشمنوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے ۔ آپؐ کے اس درخشاں پہلو نے لاکھوں مشرکوں کا دل جیت لیا جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپؐ پر ایسے فدا ہوئے کہ آپؐ پر اپنی جان و مال و دولت ، اولاد، مانباپ قربان کرنے کو ہمیشہ تیار رہتے ۔
اور ہمارا کیا حال ہے ؟ باوجود اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی ہم پر ہزاروں نعمتوں کے ، باوجود ’’اُمتِ محمدیؐ ‘‘ ہونے کے اپنے پیشانیوں پر ہم بل لئے پھرتے ہیں ، چاہے سامنا اپنے رشتہ داروں ، غرباء و مساکین و ضرورت مندوں ، پڑوسیوں سے کیوں نہ ہو ۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک انسان کو تھوڑے وسائل کیا دیئے ، تھوڑا اقتدار کیا دیا ، تھوڑا مال و دولت ، علم و فہم کیا دیا ۔ انسان اپنے تکبر میں ساتوں آسمان دوڑنے لگا ۔ پوچھا گیا تکبر کیا ہے ؟ جواب ملا خاک سے بنے انسان کا اپنی اوقات بھول جانا !
انسانی دماغ کو اﷲ نے اُس کی کھوپڑی میں محفوظ رکھا ہے ۔ پیشانی اُس کھوپڑی کا اگلا حصہ ہے جس کے پیچھے دماغ کا اگلا حصہ (Frontal Lobe) ہوتا ہے جو انسانوں میں بہت مضبوط اور ترقی یافتہ ہوتا ہے ۔ دماغ کے اس حصے سے انسان کے کئی اہم افعال مربوط ہیں ۔ اس حصے سے فیصلے صادر ہوتے ہیں ۔ جذبات اُبھرتے ہیں ، علمی مہارت حاصل ہوتی ہے ، خود احتسابی جاگ اُٹھتی ہے ۔ اپنے آپ کو ایک بہتر انسان بنانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اپنے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی جستجو اور منصوبہ بندی جنم لیتی ہے جو اُسے قیادت کے اہل بناتی ہیں ۔ یہی حصہ آپ کی شخصیت بناتا ہے اور یہیں سے آپ کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں جس سے آپ کی پیشانی خندہ ہوجائے یا پھر اُس پر بل آجائے ۔ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِيَتِـهَا ۚ (سورۂ ھود :۵۶) قرآن مجید میں یوں اشارہ ہے ۔ اور حدیث پاک میں یوں دُعا ہے ’’اے میرے رب میری پیشانی تیرے قبضۂ قدرت میں ہے ‘‘۔
ایک بندۂ مومن نماز میں سجدہ کی حالت میں جب اپنے ماتھے کو زمین پر ٹیکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بالکلیہ طورپر اﷲ کے حوالے اور سُپرد کردیتا ہے کہ یارب تونے میرے دماغ میں جو مختار حصہ رکھتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے ، میں اُسی کو تیری چوکھٹ پر رکھ رہا ہوں اور تیرے حبیبؐ کی بنائی ہوئی یہ دُعا کرتا ہوں ’’اے اﷲ مجھے ہدایت فرما ۔ میرے اقوال ، افعال اور تمام اُمور کو درست فرما ‘‘ ۔ ( صحیح مسلم بہ روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ) اور نماز میں سجدہ کی یہی حکمت ہے ۔
جب انسان سجدہ کرتا ہے تو دل سے خون دماغ میں آتا ہے ۔ اس کے ساتھ وہ سارے جذبات جو دل میں ہوں ، اُس حصہ میں جمع ہوتے ہیں جیسے غصہ ، نفرت ، بُغض اور تمام برائیاں خیال کی صورت میں جمع ہوجاتی ہیں اور جیسے ہی ایک بندہ اپنے خیالوں ، گناہوں کی آماجگاہ کو زمین پر رکھ دیتا ہے اور خود کو رب العالمین کے سپرد کردیتا ہے رحمتِ خداوندی جوش میں آتی ہے اور بندہ اپنے خدا سے اور اُس کی رحمت سے قریب ترین ہوجاتا ہے اور اُس میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ اس لئے اے مسلمان بدل جا ۔ تیرے پاس گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں ’’اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ ‘‘ ( سورۂ بقرہ) تجھے نہیں معلوم کہ موت تجھے کب دبوچ لے ۔
وقت ملتا ہے زندگی کو بدلنے کے لئے لہذا اپنی گفتگو کو حکمتوں سے لبریز کرنا ، اپنی خاموشی کو فکر بنا اپنے اعمال کو نیک بنا ۔ اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی طاعت میں لگ جا ۔ اگر تونے اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرلیں تو سمجھ لے کہ تو مستقل عبادت میں ہے اور اﷲ کا ولی بننے کے قریب ہے !
’’فجر کا سجدہ تھا چند آنسو تھے
دل کی باتیں تھیں اور دل کا خالق تھا
جو کن کا مالک تھا
بہت پر سکون ملاقات تھی
جو رب کے ساتھ تھی ‘‘