رافیل پر حکومت کی قلابازیاں

   

ہم کو دی جاتی ہے ہر دم بے گناہی کی سزا
اُن کے جبر و قہر کا لیکن کوئی چرچا نہیں
رافیل پر حکومت کی قلابازیاں
ہندوستانی عوام آخر حکمراں پارٹی کی الٹ پھیر کے ذریعہ کی جانے والی ذہنی ایذا رسانیاں کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ ہر مسئلہ پر بی جے پی حکومت آج ایک بیان دیتی ہے تو کل اس کا موقف الٹ نظر آتا ہے۔ ملک کا دفاعی معاملہ حساس نوعیت کا ہے لیکن اس مسئلہ سے بھی حکومت کھلواڑ کرتے نظر آرہی ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا جاچکا تھا کہ رافیل طیارہ خریداری معاہدہ کی دستاویزات وزارت دفاع کے دفتر سے سرقہ ہوگئے ہیں۔ اس مسئلہ کو جب اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس نے شدت سے اٹھایا اور مودی حکومت کو نشانہ بنایا تو یہ حکومت اپنی بدنامی سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ذریعہ یہ وضاحت کروائی کہ رافیل دستاویزات کا سرقہ نہیں ہوا ہے۔ حکومت نے رافیل معاملہ پر قلابازیاں دکھائی ہیں۔ حکومت نے اصل تو یہ کوشش کی کہ سپریم کورٹ میں رافیل معاملہ پر داخل کردہ یشونت سنہا، پرشانت بھوشن اور ارون شوریٰ کی درخواستوں کو مسترد کردیا جائے لیکن جب عدالت کے باہر حکومت کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن کی تنقیدوں نے اسے برسرعام بدنامی کی کھائی میں ڈھکیل دیا تو وہ خود کو اس تنازعہ سے بچانے کیلئے جن دستاویزات کو وزارت دفاع سے سرقہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا اسے غلط رپورٹ قرار دیا اور کے کے وینو گوپال نے عدالت کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے جو کچھ بیان دیا تھا وہ مکمل غلط تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ عدالت میں یشونت سنہا کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کردیا جائے کہ یہ درخواست مسروقہ دستاویزات کی بنیاد پر داخل کی گئی تھی لیکن کچھ گھنٹوں بعد حکومت کو اپنی احمقانہ حرکت کا اندازہ ہوگیا۔ فوری بعد سرقہ کی رپورٹ کو ہی غلط قرار دیا۔ ہندوستان اور فرانس کے درمیان دفاعی معاہدہ کی تحقیقات کروانے کیلئے سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواست کو ڈسمبر 2018ء میں ہی مسترد کردیا گیا تھا۔ اس پر کانگریس صدر راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن قائدین مسلسل الزام عائد کررہے ہیں کہ اس معاہدہ میں بڑے پیمانہ کی رشوت کی گئی ہے۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت کی خرابیوں کی درست نشاندہی کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اس ملک کے عوام کی مؤثر نمائندگی کررہے ہیں۔ رافیل دستاویزات سرقہ پر بھی انہوں نے مودی کے مخصوص لہجہ پر تنقید کی اور کہا کہ ’’غائب ہوگیا ہے‘‘ کیونکہ مودی نے اپنے کئی وعدوں کو ہی غائب کردیا ہے۔ اس ملک کے کروڑہا نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ بھی ’’غائب‘‘ کردیا ہے۔ معاشی ترقی غائب ہوگئی ہے اور اب رافیل فائیلس غائب ہوگئے ہیں۔ یہ حکومت کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے اس کے باوجود بی جے پی حکومت اپنے چوکیدار مودی کو بچانے کی ہر پہلو سے کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی کی اس کوشش سے اگر حکومت کی ناقص کارکردگی پر پردہ پڑتا ہے اور جو خرابیاں ہورہی ہیں اس کو سرکاری تحفظ دیا جاتا ہے تو پھر اس حکمرانی کو اندھیر نگری چوپٹ راج ہی کہا جائے گا۔ اس حکومت میں سماجی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ مخصوص شہریوں کیلئے حصول انصاف کے راستے مسدود کردیئے گئے ہیں۔ حکومت جہاں ایک طرف مجرم پیدا کرنے کے عوامل کو بڑھاوا دے رہی ہے وہیں مجرمین کو اتنا منہ زور بنادیا گیا ہے کہ وہ سماجی اقدار کو تباہ کررہے ہیں۔ رافیل معاہدہ کی دھاندلی سے لیکر سرکاری کاموں میں ابتری کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی اس حکومت کی ہر خرابی کو نوٹ کرکے بروقت توجہ دلارہے ہیں لیکن حکومت اتنی بے شرمی پر اتر آئی ہے کہ اسے کسی بھی قسم کی تنقیدوں کی پرواہ نہیں ہے۔ خرابیوں کو دور کرنے اور جرم روکنے کی مشنری میں کہاں کیا کیا خرابیاں ہیں اس کا جائزہ لینے کے بجائے یہ حکومت اپوزیشن کو قوم دشمن قرار دے کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے جو ایک جمہوری ملک میں غیرجمہوری ماحول کو فروغ دینے کی کھلم کھلا کوشش ہے۔
ہندوستان کیساتھ صدر امریکہ ٹرمپ کے تجارتی شرائط
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں ہندوستان کو اس کے ترقی پذیر ملک کے فوائد حاصل کرنے والے موقف سے برخاست کرنے کا فیصلہ کرکے ایک سخت راہ کی جانب قدم اٹھایا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تجارتی تعلقات کھڈ بھرے راستوں پر چل پڑیں گے۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ میں کسی قسم کی تجارتی معقولیت پسندی نظر نہیں آتی۔ اس سے 5 بلین ڈالر کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ ہندوستان اس وقت امریکہ کو جو کچھ اشیاء برآمد کرتا ہے اس کا 10 فیصد ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد کے تحت اشیاء کی شرح بندی کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن اس کے جواب میں امریکہ چاہتا ہیکہ ہندوستان کی مارکٹ میں بھی اس کے برآمدات کیلئے مارکٹ رسائی دی جائے۔ اگر ٹرمپ نے ہندوستان کو دیئے گئے اس ترجیحی تجارتی ملک کے درجہ سے ہٹا دینے کے فیصلہ پر قطعی عمل شروع کیا تو پھر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کو اس وقت جنوبی ایشیاء میں چین کے ساتھ ایک نقصان والی تجارتی جنگ سے گذرنا پڑرہا ہے ایسے میں اس نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاملہ کو کشیدہ بنادیا تو اس کو غیرمنصفانہ تجارتی اقدامات سمجھے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے امریکی کانگریس کو مکتوب تحریر کرکے یہ شکایت کی ہیکہ ہندوستان نے امریکہ کو یہ تیقن نہیں دیا ہیکہ وہ اپنی مارکٹ کو امریکی اشیاء کیلئے کھول دے گا۔ اس لئے وہ اپنے نظم و نسق کو ہدایت دیتے ہیں کہ ہندوستان کو اس ترجیحی پروگرام سے نکال دے لیکن یہاں کانگریس کے مقرر کردہ قوانین کے تحت ہی ہندوستان کو یہ ترجیحی موقف دیا گیا ہے اب ٹرمپ اپنے ہی ملک کے کانگریس گروپ کی پالیسیوں کے خلاف جارہے ہیں۔ ہندوستان کی معاشی مارکٹ وسعت پارہی ہے ایسے میں صدر ٹرمپ کو ایک دوراندیش حکمراں کے ساتھ ساتھ معاملہ فہم تاجر کی حیثیت سے اپنے فیصلہ پر غور کرنا چاہئے۔