ریاستی حکومتیں اور گورنرس

   

شکستہ دل ہوں مگر مسکرا کے ملتا ہوں!
اگر یہ فن ہے تو سیکھا ہے اک عذاب کے بعد
ریاستی حکومتیں اور گورنرس
ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے ۔ اس ملک میں مرکزی حکومت سارے ملک میں اپنی بالادستی رکھتی ہے تاہم ریاستوں کو بھی ان کے اپنے حدود میں اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ بھی سرکاری کام کاج اور قانون سازی کی مجاز ہوتی ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو بھی ان ریاستوں کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ ہی منتخب کرتے ہیں۔ وہ بھی عوامی نمائندے ہی ہوتے ہیں اور عوام کے ووٹ سے ہی حکومتوں کی تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے ۔ ہندوستان میں حکمرانی کی روایات رہی ہیں ان میں ہمیشہ ہی مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کی مدد کی جاتی رہی ہے ۔ ان کی رہنمائی کی جاتی رہی ہے ۔ جس طرح صدر جمہوریہ ہند ملک کے سربراہ ہوتے ہیں اسی طرح گورنر ریاستی حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں۔ گورنرس کا عہدہ دستوری عہدہ ہے اور یہ اب تک سیاسی اثر و رسوخ اور مداخلتوں سے دور رہا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے گورنرس کو استعمال کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں رخنہ اندازی کی جاتی ہے ۔ ان پر سیاسی دباؤ ڈالا جاتا ہے ۔ سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے مقصد سے ریاستی حکومت کے کام کاج کو منظوری دینے کی بجائے اس میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ ملک کی آزادی کے چھ دہوں سے زیادہ کے عرصہ میں گورنرس کو کبھی سیاسی مقصد براری کیلئے استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ مواقع پر گورنرس کے عہدہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ گورنرس کی رپورٹس کی بنیاد پر ریاستی حکومتوں کو بیدخل بھی کیا گیا ہے ۔ تاہم گذشتہ ایک دہے میں خاص طور پر گونرس کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں رخنہ اندازی اور سیاسی مقصد براری کی نئی روایات شروع کردی گئی ہیں اور یہ معاملہ کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر اس ریاست میں یہی صورتحال ہے جہاں اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ہے ۔یہ سلسلہ دہلی سے شروع ہوا اور ٹاملناڈو پہونچا ‘ کیرالا سے ہوتا ہوا تلنگانہ پہونچا ‘ کچھ وقت کیلئے مہاراشٹرا میں بھی ایسا کیا گیا اور سرکاری کام کاج میں رکاوٹ پیدا کی گئی ۔
کچھ ریاستی حکومتوں کو گورنرس کی جانب سے اسمبلی اور کابینہ میں منظوری بلز کی توثیق کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونا پڑا ۔ تلنگانہ حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے گورنر کی جانب سے بلوں کی منظوری میں غیر معمولی تاخیر یا پھر انہیں واپس کردئے جانے سے واقف کروایا تھا ۔ اب ٹاملناڈو نے بھی گورنر کے رویہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی تھی ۔ سپریم کورٹ نے گورنرس کی جانب سے بلوں کی منظوری میں تاخیر پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ عوامی ووٹ سے منتخبہ حکومتوں کے کام کاج میں رخنہ اندازی نہیں کی جانی چاہئے تاہم گورنرس کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے مسائل صرف اپوزیشن اقتدار والی ریاستوں میں ہی کیوں پیدا ہونے لگے ہیں۔ مغربی بنگال میں بھی یہی ہواتھا اور جنوب کی تین ریاستوں کی بھی صورتحال یہی رہی تھی ۔ صرف اپوزیشن ریاستوں میں ایسی صورتحال سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ مرکزی حکومت گورنرس کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن ریاستوں کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ گورنرس کا عہدہ دستوری عہدہ ہے اور اس کا اپنا وقار اور احترام ہے ۔ اس کو سیاسی رسہ کشی میں کھینچ کر اس کا وقار متاثر نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے نتیجہ میں گورنر کے عہدہ کا وقار متاثر ہو رہا ہے اور یہ صورتحال ملک میںوفاقی طرز حکمرانی کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس بات کا ہر فریق کو خاص طور پر خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔
ریاستی حکومتیں اپنی ترجیحات اور وعدوں کے مطابق قانون سازی کا عمل کرتی ہیں۔ گورنر کی جانب سے اس کی منظوری میں تاخیر سے عوامی فلاح و بہبود بھی متاثر ہوتی ہے ۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے کام میں تاخیر ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں حکومتوں کو الجھن آمیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گورنرس کو سربراہ حکومت کی طرح کام کرتے ہوئے عوام کو سہولیات پہونچانے کے عمل کوتیز تر کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر دستوری اور قانونی ذمہ داری کے وقار اور اس کے احترام کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ سیاسی رسہ کشی کو اس طرح کے معاملات سے دور رکھنے کی ضرورت ہے اور سبھی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔