زین الفقھاء حضرت مولانا مفتی خلیل احمد مدظلہ العالی

   

جن کی تربیتی نگاہ نے تحمل ، قوت ارادی اور سکونِ قلبی کو جلا بخشی

آج سے تقریباً تیس (۳۰) سال قبل ۱۹۹۳؁ء مجھے عالم اسلام کی عظیم الشان دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں داخلہ کا شرف حاصل ہوا ۔ انیسویں صدی کا یہ آخری دہا میرے نزدیک پولیس ایکشن کے بعد سے تاحال ان سات دہائیوں میں علمی اور فکری اعتبار سے جامعہ نظامیہ کا سب سے سنہرا دور تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی اس دور میں شیوخ اور نائبین شیوخ کا کہکشاں قدیم اکابر شیوخ کی راست نگرانی میں پروان چڑھا تھا اور وہ زندگی کے آزمائشی و تجرباتی مراحل سے گذرکر طلباء کی تعلیم، تربیت ، فکرسازی اور علمی نشاط و ہماہمی پر ہمہ تن مرکوز تھا اور ان کا فیضانِ علمی مکمل سخاوت و داد و دہش اور پورے انہماک کے ساتھ اپنی نورانی شعاعیں بکھر رہا تھا ۔
حضرت مولانا قاضی سید محبوب حسینؒ نائب شیخ التفسیر تھے ، آیات قرآنیہ کی تفسیر و تشریح میں خوب درک رکھتے ، آپ ؒجماعت میں جلالین کا درس دیتے لیکن ساری درسگاہ آپ ؒکی بلند آواز سے گونج اُٹھتی ۔
حضرت مولانا محمد عبدالقدوسؒ جیسی عظیم شخصیت اُس وقت نائب شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھی ۔ آپؒ حدیث ، فقہ اور اُصول فقہ کی تدریس میں یدطولیٰ رکھتے اور دورانِ درس ایک لمحہ ضائع نہیں فرماتے ۔
حضرت مولانا مفتی سید صادق محی الدین ؒ نائب شیخ الفقہ تھے ، اپنی وضعداری ، علمی وجاہت میں منفرد مقام رکھتے اور طلباء کی اخلاقی تربیت پر ہمیشہ زور دیتے ۔ مولانا ڈاکٹر محمد سیف اﷲ نائب شیخ الادب قدیم تھے ۔ جس پیرایہ میں انھوں نے ہمیں ’’الکافیہ‘‘ پڑھائی ہے ، شاید ہی کوئی آپؒ کی طرح محنت و جستجو کا شوق رکھتا ہو اور آپؒ کے دلچسپ اسلوب تدریس کی نقل کرسکتا ہو ۔ نیز یہی کیفیت سبع المعلقات اور البلاغۃالواضحۃ کی تدریس کی تھی ۔ ایسے محنتی ، بااعتماد ، فن کے ماہر دقیق مباحث کو خوشگوار ماحول میں طلباء کے ذہن و دماغ میں اُتارنے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ بہت ہی کم ہوتے ہیں ۔
مولانا ڈاکٹر سید جہانگیر جدید ادب کے نائب تھے ، میرے نزدیک وہ صحافتی زبان کے بے تاج بادشاہ ہیں ، جدید اصطلاحات اور صحافتی ترجمہ پر غیرمعمولی قدرت رکھتے تھے ۔ انھوں نے طلباء میں عربی زبان و ادب کا ذوق پیدا کرنے میں نمایاں رول ادا کیا جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ مولانا محمد مختار احمد نائب شیخ المعقولات تھے ،۔ تفہیم کی صلاحیت منفرد تھی، فن کے ماہر استاد تھے ۔ جس قدر آج منطق و فلسفہ کی شعور و آگہی ہے اس میں استاذ محترم کے نمایاں کردار کو تادم زیست بھلایا نہیں جاسکتا بلکہ عقلی علوم و مفاہیم کے ادراک کی صلاحیت درحقیقت آپؒ ہی کے فیض تدریس کی مرہون منت ہے ۔ ایسے بلند نائبین شیوخ تھے ، وہ نہ صرف اپنے اپنے فن کے ماہر اساتذہ تھے بلکہ وہ طلباء کے لئے اخلاقی اعتبار سے بھی عظیم نمونے کے حامل تھے ۔ مولوی اور عالم چار سال ان بزرگوں کی خدمت میں زانوئے ادب طئے کرنے کے بعد فاضل میں پہنچے اور شیوخ کرام کی محفل درس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ ہم کنٹہ و تالاب سے نکل کر علمی سمندر میں آگئے ہیں ۔ شیوخ کی عظمت اور علمی بالادستی کا کچھ تقابل ہی نہ تھا ۔ حضرت مولانا سید شاہ طاہر رضویؒ واقعی صدرالشیوخ تھے قدیم ادب ، تفسیر اور تصوف میں مرجع کی حیثیت رکھتے ۔
حضرت مولانا مفتی محمد ولی اﷲ قادریؒ عقلیات کے شیخ تھے ۔ فقہ ، اُصول فقہ پر گہری نظر رکھتے ، اسلوب تفہیم میں سب سے ممتاز ، کمزور طلباء کو اُٹھانے کا ملکہ رکھتے عزم و انقلاب سے بھرپور ہر وقت طلباء کی ذہن سازی فرماتے اور بزرگوں کے قصے نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے اور ہمیشہ جامعہ نظامیہ کے طریقۂ اعتدال پر زور دیتے اور بریلوی و دیوبندی فکر سے طلباء کو ہوشیار رکھتے ۔ حضرت مولانا مفتی ابراہیم خلیل الہاشمیؒ اس وقت شیخ الفقہ اور مفتی تھے آپؒ تفسیر کے شیخ بھی رہے فارسی زبان کے ماہر تھے ۔ ابوالوفاء افغانی رحمۃ اللہ کی راست نگرانی اور تربیت میں پروان چڑھے ۔ آپؒ فقیہ تھے اور فقہی بصیرت میں ان کی مثال نہ تھی ۔ درس کے دوران آپؒ کی زبان مبارک سے الفاظ و کلمات ایسے نکلتے گویا موتیوں کی لڑی کو بکھیر دیا گیا ہے ۔ حضرت مولانا محمد خواجہ شریفؒ شیخ الحدیث تھے۔ جامعہ نظامیہ کی تاریخ میں بہت ہی کم ایسی جامع الصفات شخصیتیں ظاہر ہوئی ہیں ۔ آپؒ باکمال محدث تھے لیکن ذوق ادبی میں اپنے وقت کے ادباء میں ممتاز تھے اور ہر فن پر یکساں صلاحیت رکھتے گویا کہ علوم و فنون آپؒ کی طبیعت و مزاج میں رچ بس گئے ہیں ۔
حضرت مولانا حافظ و قاری عبداﷲ قریشی الازھریؒ نائب شیخ الجامعہ اور شیخ الادب تھے ازھر کے فارغ تھے ، دکن میں عربی زبان کا ایسا باکمال خطیب ہم نے نہیں دیکھا بلاشبہ وہ ’’سحبان الدکن ‘‘ تھے ۔ عربی زبان دانی کے علاوہ عربی ادب کی فنی و دقیق عبارتوں کا ایسا بامحاورہ اور شستہ ترجمہ اپنی میٹھی اور رعب دار آواز میں فرماتے کہ طبیعت جھوم جاتی ۔ ہمارے طالب علمی کے آخری دور میں حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ؒ دوبارہ منصب افتاء پر فائز ہوئے ۔ میرے نزدیک ٹکنیکل طورپر وہی ’’مفتی ‘‘ تھے بلکہ حضرت مفتی محمد رکن الدینؒ کے فتاوی بنیاد اور نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں اور حضرت مفتی محمد عظیم الدینؒ کے فتاوی تتمہ اور نتیجہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔
ایسی علمی قدر آور شخصیتوں کی جھرمٹ میں زین الفقھاء حضرت مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ اپنی نرالی اور امتیازی شناخت رکھتے ہیں ۔ آپ مفتی بھی رہے ، فقہ کے شیخ رہے حدیث پاک کی بے مثال تدریس فرمائی لیکن میرے نزدیک آپ کا امتیاز ’’اصولی ‘‘ اور ’’متکلم‘‘ ہونا ہے ۔ اس قدر عظیم شیوخ کی کہکشاں ہیں ’’اصول فقہ ‘‘ اور ’’علم الکلام‘‘ میں کوئی آپ کا شریک نہ تھا ۔ مخفی مباد کہ ’’اصول ‘‘ اور ’’علم الکلام ‘‘ حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲ امام محمد انواراللہ فاروقی قدس سرہ العزیز بانی جامعہ نظامیہ کا وصف امتیاز تھا ۔ یہی وجہ ہیکہ جامعہ نظامیہ کے نصاب میں بطور خاص منطق و عقلیات اور اُصول کو غیرمعمولی ترجیح دی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ قیامِ نظامیہ کے وقت حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کی نظر مغربی ممالک کے عالمی یونیورسٹیز کے نصاب پر تھی ۔اُسی کے پیش نظر جامعہ نظامیہ کے نصاب میں عقلیات اور اصول کو حدردرجہ اہمیت دی گئی ۔ توضیح تلویح شرح سلم العلوم اور مسلم الثبوت کو شامل نصاب کیا گیا اور جو شخص مسلم الثبوت کو کماحقہ سمجھتا ہو اور اس کی تدریس کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے سامنے آکفورڈ یونیورسٹی کے فلسفہ کا پروفیسر اپنی کم مائیگی کا اعتراف کریگا ۔ اس عظیم کتاب کو حضرت زین الفقھاء مولانا مفتی خلیل احمد مدظلہ نہایت متانت اور آسانی سے پڑھاتے ہیں ۔ اس خاکسار کی فراغت کے بعد آپ ہی کی تجویز پر میرا تقرر بحیثیت معلم تحتانی عمل میں آیا ۔ مجھے صحافت سے دلچسپی رہی ، روزنامہ منصف اور روزنامہ اعتماد میں مختصر مدت کے لئے کام کرنے کے بعد حضرت قبلہ ہی کے حکم پر روزنامہ سیاست میں آپ ہی کی نگرانی میں شرعی سوال و جواب ترتیب دینے کا موقعہ ملا ۔ مکمل دو سال تک آپ نے میری نگرانی و رہنمائی کی اس طرح میری فقہ اور افتاء کی ٹریننگ کی ابتداء ہوئی ۔ بعد ازاں آپ ہی کی تجویز پر میرا تقرر بحیثیت نائب مفتی عمل میں آیا ۔ ایک مرحلہ پر امریکہ میں ایک اسلامک سنٹر کے ذمہ دار رجوع ہوئے تو آپ نے اس خاکسار کا نام تجویز کیا ، جب کارروائی آگے بڑھی تو میری شادی ہوگئی تھی، آپ نے اپنی جانب سے امریکی سنٹر کے ذمہ دار پر واضح کیا کہ یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہی امریکہ آئیں گے ۔ اس طرح امریکہ آنے کی میری راہ ہموار ہوئی اور آج دس سال امریکہ میں قیام کے دوران بفضل الٰہی مجھے امریکہ کی ایک نامور یونیورسٹی میں ’’تعارف اسلام ‘‘ کے موضوع پر گریجویشن کے طلباء کو پڑھانے کا موقعہ ملا جس میں تمام طلباء و طالبات امریکہ کے عیسائی باشندے تھے ۔ میں اس کو امریکہ میں اپنی کامیابی کا پہلا زنیہ قرار دیتا ہوں اوراس کو حضرت قبلہ مدظلہ العالی کے معنون کرتا ہوں ۔ میں اپنی مختصر اور پرسکون زندگی میں مختلف مراحل و تجربات سے گذرا ہوں لیکن مصائب و سخت حالات میں صبر و تحمل ، بلند قوت ارادی، اپنے موقف پر قائم رہنا اور ایسے نازک لمحات میں قلب کا پرسکون و مطمئن رہنا درحقیقت آپ ہی کی نگاہ فیض کا نتیجہ ہے ۔