سیدنا عمر فاروق ؄ کاجذبۂ خدمت ِخلق

   

ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ رات کو مدینہ منورہ میں گشت کر رہے تھے۔ چلتے چلتے ایک خاتون دکھائی دی۔ خاتون نے پانی کی مشک اٹھا رکھی تھی۔ امیر المؤمنین کو تعجب ہوا کہ اس خاتون کو اتنی رات گئے گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ پوچھا کیا ماجرا ہے؟۔ خاتون نے آپ کو پہچانا نہیں۔ اس نے کہا ’’چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کوئی خادم نہیں ہے، لہذا پانی بھرنے کے لئے مجھے رات کو ہی نکلنا پڑتا ہے، کیونکہ دن میں گھر سے نکلنا مجھے اچھا نہیں لگتا‘‘۔امیر المؤمنین نے پانی کی مشک خاتون سے لے لی، کندھوں پر اٹھائی اور اس کے گھر تک پہنچا دیا۔ پھر آپ نے فرمایا ’’صبح عمرؓ کے پاس آنا، وہ تمہارے لئے خادم کا انتظام کردے گا‘‘۔ خاتون نے ناامیدی سے کہا ’’عمرؓ کس طرح ملیں گے؟‘‘۔ آپؓ نے فرمایا ’’آنا تو سہی، وہ تمھیں ان شاء اللہ تعالی ضرور ملیں گے‘‘۔خاتون صبح سویرے حاضر ہوئی اور جب آپؓ کو دیکھا تو اسے بڑا تعجب ہوا۔ ’’ارے! یہ تو وہی ہیں، جنھوں نے رات پانی کی مشک اُٹھاکر میرے گھر پہنچائی تھی‘‘۔ یعنی دیکھ کر واپس لوٹ گئی۔ امیر المؤمنین کو جیسے ہی پتہ چلا، فوراً ایک آدمی کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اس خاتون کو لے کر آؤ۔ خاتون دوبارہ حاضر خدمت ہوئی۔ آپؓ نے اس کے لئے ایک خادم کا بندوبست کیا اور معقول وظیفہ بھی اس کے نام جاری کردیا۔اسی طرح قبیلہ جہنیہ کے ایک شخص کا بیان ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور خلافت تھا۔ مجھے میرے والد نے بکریوں کے چند چھوٹے بچے دے کر روانہ کیا کہ انھیں مدینہ منورہ میں بیچ آؤں۔ مدینہ کے قریب پہنچا تو ایک صاحب دکھائی دیئے، وہ بھی مدینہ جا رہے تھے۔ میرے گدھے پر کافی بوجھ لدا ہوا تھا، جو ایک طرف جھک کر گرنے کو تھا۔ میں نے ان صاحب کو آواز دی ’’اے اللہ کے بندے! ذرا گدھے کا بوجھ سیدھا کروادو‘‘۔ ان صاحب نے کہا ’’کیوں نہیں‘‘۔ پھر آگے بڑھے اور ہم دونوں نے مل کر گدھے پر لدا ہوا بوجھ سیدھا کردیا۔ پھر صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘۔ میں نے جواباً والد کا نام لیا اور کہا ’’قبیلہ جہنیہ کے فلاں آدمی کا بیٹا ہوں‘‘۔ پھر میں نے پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’میں امیر المؤمنین عمر ہوں‘‘۔