سی بی آئی کی کاررو ائیاں

   

ابھی تو دور ہے کشتی ہماری ساحل سے
امڈ کے آنے کو طوفاں ہے کون سمجھے گا
مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارکردگی ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ گذشتہ تقریبا آٹھ برس سے مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائیوں پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا مسلسل الزام ہے کہ حکومت ان ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والے عناصر کو ان ایجنسیوں کے ذریعہ خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ مخالفانہ آوازوں کو دبانے اور کچلنے کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ان ایجنسیوں کی غیرجانبداری مشکوک بنادی گئی ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت سے ہی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کے الزامات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ سیاسی مخالفین کی آواز دبانے اور کچلنے کیلئے ان ایجنسیوں کا استعمال ہو رہا ہے ۔ حالانکہ مرکز نے اس کی تردید کی ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایجنسیوں کی کارروائیاں صرف اپوزیشن قائدین تک محدود ہیں۔ اگر جتنی بھی کارروائیاں کی گئی ہیں وہ سب درست بھی ہیں تب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی یا اس کی حلیف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کے خلاف بھی الزامات ہیں ان کے خلاف بھی مقدمات درج ہیں’ ان پر بھی بدعنوانیوں و کرپشن کے الزامات ہیں تاہم ان کے خلاف یہ تحقیقاتی ایجنسیاں کوئی کارروائی شروع نہیںکرتیں۔ اس طرح جو کارروائی کی جا رہی ہے وہ سلیکٹ کارروائی ہے ۔ مخصوص گوشوں ہی کو نشانہ بناتے ہوئے کارروائی کی جا رہی ہے ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے یا پھر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے قائدین کے خلاف الزامات اور مقدمات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ کارروائیوں اور مقدمات کو برفدان کی نذر کردیا گیا ہے ۔ یہ طریقہ کار تحقیقاتی ایجنسیوں کے غیرجانبدارانہ کردار پر سوال پیدا کرتا ہے ۔ انہیں شک کے دائرہ میں لا کھڑا کرتا ہے کہ وہ غیرجانبداری سے کام نہیں کر رہی ہیں۔
مغربی بنگال میں بی جے پی نے ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی کے وزراء اور قریبی ساتھیوں کو نشانہ بنایا تھا ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ کچھ کو تو گرفتار بھی کیا جانے والا تھا ۔ اس صورتحال میں خوفزدہ ہو کر شاردا اسکام میں مقدمات کا سامنا کرنے والے کئی قائدین بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔ بی جے پی نے ان کی مدد سے بنگال میں انتخابی مقابلہ کیا تاہم ان تمام قائدین کے خلاف آج تک کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ کوئی مقدمہ آگے نہیں بڑھایا گیا ۔ جس تیزی سے مقدمات کو آگے بڑھایا جا رہا تھا اس کو بھی روک دیا گیا ہے ۔ وہ تمام قائدین آج خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ اسی طرح آندھرا پردیش میں تلگودیشم کے تین ارکان راجیہ سبھا کے خلاف رقمی خرد برد کے الزامات عائد کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا گیا ۔ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد یہ تینوں ہی قائدین بی جے پی میںشامل ہوگئے ۔ ان تینوں کے خلاف بھی تحقیقاتی ایجنسیاں آج تک حرکت میں نہیں آئیں۔ مقدمات کہاں تک پہونچے ہیں‘ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اب تک کیا پیشرفت کی ہے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے اور یہ تینوں قائدین بھی اب آزاد اور محفوظ ہیں۔ مہاراشٹرا سے لے کر کرناٹک تک اور دوسری ریاستوں میں بھی بی جے پی قائدین کے خلاف کرپشن اور بدعنوانیوں کے مقدمات ہیں لیکن ان کو جتنا جلد ممکن ہوسکے کلین چٹ دلائی جا رہی ہے اور کوئی کارروائی نہیںہو رہی ہے ۔
گذشتہ دنوں دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ وہ جیل بھیج دئے گئے ہیں۔ا ب اچانک ہی بہار میں سابق چیف منسٹر لالوپرساد یادو کی اہلیہ و سابق چیف منسٹر رابڑی دیوی کے گھر سی بی آئی پہونچ گئی ۔ ان سے اراضی برائے ملازمت اسکام میں پوچھ تاچھ کی گئی ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ رابڑی دیوی کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ در اصل سیاسی کھیل ہونے کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی انتخابی تیاریوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ ایسے میں سی بی آئی کی کارروائیاں یکطرفہ ہیں اور صرف منتخبہ افراد کے خلاف ہی ایجنسیاں سرگرم ہو رہی ہیں۔