شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کا ملنا، پھرنا اور پے پردہ ہونا جائز نہیں

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کا ملنا، گھومنا اور پھرنا اسلام میں کیسا ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا جوان عورتوں کیلئے یہ حکم ہے کہ وہ اجنبی لوگوں سے اپنے چہروں کو باہر نکلتے وقت چھپائے رکھیں تاکہ فتنوں سے محفوظ رہیں۔ علامہ ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اﷲعلیہ احکام القرآن میں ارشاد باریٔ تعالیٰ عز اسمہ : یٰایھا النبی قل لازواجک و بنٰتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن کے تحت تحریر فرماتے ہیں : قال ابوبکر فی ھذہ الآیۃ دلالۃ علی المرأۃ الشابۃ مامورۃ بستر وجھھا عن الاجنبیین واظہار الستر والعفاف عندالخروج لئلا یطمع اھل الریب فیھن۔
پس صورتِ مسئول عنہا میں لڑکا اولڑکی کا بغیر نکاح کئے ملنا، پھرنا اور بے پردہ ہونا شرعًا جائز نہیں ہے۔
پانی بورویل سے نکال کر بیچنے کا شرعی حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پانی بورویل سے نکال کر صاف کرکے بیچ سکتے ہیں یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا زمین سے پانی نکالنے کے بعد نکالنے والا اسکا مالک ہوگا۔ اور وہ پانی قابل تقسیم ہوگا۔ اسکی معقول قیمت پر فروختگی جائز ہے۔ پانی زمین سے نکالنے سے قبل اسکی فروختگی درست نہیں۔ البحرالرائق جلد ۵ کتاب البیع صفحہ ۴۳۳ میں ہے : واما شرائط المعقود علیہ فان یکون موجودا مالا متقوما مملوکا فی نفسہ وان یکون ملک البائع فیما یبیعہ لنفسہ و ان یکون مقدورالتسلیم۔ اور صفحہ ۴۳۵ میں ہے : بیع مالا یملکہ فلم ینعقد بیع الکلأ ولو فی ارض مملوکۃ لہ، والماء فی نہرہ أو فی بئرہ۔ اور ردالمحتار جلد ۴ صفحہ ۱۲۳ میں ہے : وقال الرملی ان صاحب البئر لا یملک الماء کما قدمہ فی البحر فی کتاب الطہارۃ فی شرح قولہ وانتفاخ حیوان عن الولوا لجیۃ فراجعہ و ھذا مادام فی البئر أما اذا أخرجہ منھا بالاحتیال کما فی السوانی فلا شک فی ملکہ لہ لحیازتہ لہ فی الکیزان ثم صبہ فی البرک بعد حیازتہ۔
طلاق یا خلع کی صورت میں مہر کا شرعی حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لڑکی اپنی جانب سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہے۔ اب اِس صورت میں لڑکی کا مہر ادا کرنا پڑیگا یا نہیں ؟ کیونکہ لڑکی، خود اپنی طرف سے رشتۂ ازدواج ختم کررہی ہے۔
ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورتِ مسئول عنہا میں رشتۂ ازدواج منقطع کرنے کیلئے، اگر شوہر طلاق دے تو اس کو بیوی کا مہر ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر بیوی اپنی طرف سے خلع مانگ رہی ہے تو شوہر کے قبول کرنے پر، شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط ہوکر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی۔ یعنی شوہر پر مہر کی ادائی لازم نہ ہوگی۔ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ ۳۱۸ میں ہے : لا خلاف لاحد أن تأجیل المھر الی غایۃ معلومۃ نحو شہر أو سنۃ صحیح وان کان لا الی غایۃ معلومۃ فقد اختلف المشایخ فیہ قال بعضھم یصح و ھو الصحیح وہذا لان الغایۃ معلومۃ فی نفسھا وھو الطلاق أو الموت۔ اور اسی کتاب کے باب الخلع صفحہ ۴۸۸ میں ہے: اذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدودا ﷲ فلابأس بأن تفتدی نفسھا منہ بمال یخلعھا بہ فاذا فعلا ذلک وقعت تطلیقۃ بائنۃ ولزمھا المال کذا فی الھدایۃ۔ اور شرح وقایہ جلد دوم باب الخلع میں ہے : والمھر یسقط من غیرذکرہ۔ فقط واﷲ أعلم