شادی کا وعدہ توڑنا دھوکہ نہیں ہوتا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ

,

   

عدالت نے مذکورہ فرد اور اس کے افراد خاندان کے خلاف ایک عورت سے شادی کا وعدہ کے بعد دھوکہ کے الزامات پر درج معاملے میں ایف ائی آر کومنسوخ کردیاہے


بنگلورو۔مذکورہ کرناٹک ہائی کورڈ نے کہاہے کہ شادی کا ایک وعدہ جو کسی ایک فرد سے کیاگیاہے اس کو بطور دھوکہ جرم ائی پی سی کی دفعات کے تحت نہیں تسلیم کیاجاسکتا ہے۔

مذکورہ فرد مبینہ طور پر ایک عورت کے ساتھ اٹھ سالوں تک معاشقہ میں رہا اور پھر ایک دوسری عورت سے شادی کا وعدہ توڑ تے ہوئے شادی کرلی ہے۔

اس کے علاوہ عدالت نے مذکورہ فرد اور اس کے افراد خاندان کے خلاف ایک عورت سے شادی کا وعدہ کے بعد دھوکہ کے الزامات پر درج معاملے میں ایف ائی آر کومنسوخ کردیاہے۔

جسٹس نٹراجن کے قیادت والی بنچ نے یہ فیصلہ اس وقت دیا ہے جب بنگلورو کے کے آر پورا کے ایک ساکن وینٹکیش کے متعلق دائر ایک درخواست کی سنوائی کررہے تھے۔

مذکورہ بنچ نے مانا کہ ”ایسا کہاگیا کہ مذکورہ درخواست گذار نے شادی کے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ مگر ایک شادی وعدے کی خلاف ورزی اگر کی ہے تو اس کو دھوکہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا ہے۔

شادی توڑنے کے پہلو کو تعزیرات ہند کی دفعہ 415میں نہیں جوڑاجاسکتا ہے“۔مذکورہ عدالت نے مزید اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ”دھوکہ دینے کی غرض سے اگر ایک شادی کا معاہدہ ہوتا ہے تو مجرمانہ کیس بن سکتا ہے۔

مگر اس کیس میں یہ نصب کیاگیا ہے کہ مذکورہ درخواست گذار نے دھوکہ کی غرض سے شادی کا وعدہ توڑ دیاہے۔

اس لڑکی نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھائی ہے جس سے یہ ثابت کیاجاسکتا ہے کہ ائی پی سی کی دفعہ420کے تحت ایک جرم کیاگیاہے“۔

رام مورتی نگر کے ساکن ایک عورت نے 5مئی2020کو درخواست گذار وینکٹیش اور اس کے گھر والوں کے خلاف پولیس کے ساتھ ایک شکایت درج کرائی تھی۔

ان کادعوی تھا کہ درخواست گذار وینکٹیش اور وہ اٹھ سال سے معاشقہ میں تھا اور اس کے ساتھ شادی کا وعدہ کیاگیاتھا۔ اس نے درخواست گذار کی کسی دوسری عورت سے شادی کے خلاف کاروائی کی مانگ کی تھی۔