شخصیت کی تعمیر اور مشائخ چشت کی تعلیمات

   

ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دیکے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
(اقبال)
سیرالاولیاء کے مصنف نے ہندوستان کے احوال پر نہایت دقت سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفر و شرک کی بستی تھی اہل تمرد ’’انا ربک الاعلیٰ‘‘ کی صدا لگارہے تھے اور خدا کی خدائی میں دوسری ہستیوں کو شریک کرتے تھے ۔ اور اینٹ ، پتھر ، درخت ، جانور ، گائے و گوبر کو سجدہ کرتے تھے ، کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اور مقفل تھے ، سب دین و شریعت کے حکم سے غافل ، خدا اور پیمبر سے بے خبر تھے ، نہ کسی نے کبھی قبلہ کی سمت پہچانی ، نہ کسی نے اﷲ اکبر کی صدا سنی ، آفتابِ اہل یقین حضرت خواجہ معین الدینؒ کے قدم مبارک کا اس ملک میں پہنچنا تھا کہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی ، ان کی کوشش و تاثیر سے جہاں شعائر شرک تھے وہاں مسجد و محراب و منبر نظر آنے لگے ، جو فضا شرک کی صداؤں سے معمور تھی وہ نعرۂ اﷲ اکبر سے گونجنے لگی ۔ اس ملک میں جس کو دولت اسلام ملی اور قیامت تک جو بھی اس دولت سے مشرف ہوگا نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد در اولاد ، نسل در نسل سب ان کے نامۂ اعمال میں ہوں گے اور اس میں قیامت تک جو بھی اضافہ ہوتا رہے گا اور دائرۂ اسلام وسیع ہوتا رہے گا قیامت تک اس کا ثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سجزی ؒ ( حضرت غریب نوازؒ) کی روح کو پہنچتا رہیگا ‘‘۔ (سیرالاولیاء صفحہ ۴۷)
اور صاحب سیر الاقطاب نے اس طرح لکھا ہے : ہندوستان میں ان کے دم قدم کی برکت سے اسلام کی اشاعت ہوئی اور کفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی ۔ (سیرالاقطاب صفحہ ۱۰۱)
ابوالفضل ’’آئین اکبری ‘‘ میں لکھتا ہے : ’’اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا ، ان کے انفاس قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی ‘‘۔
متذکرہ بالا اقتباسات سے واضح ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ہند و پاک کی سرزمین میں نورالاسلام کی تبلیغ و اشاعت چشتیہ سلسلہ کے اکابر کے مقدر میں رکھی تھی ۔ سلطان الھندحضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر ہزارہا ہندو مشرف بااسلام ہوئے بلکہ آپ نے اہل اسلام کی تعلیم و تربیت اور مریدین و معتقدین کی ارشاد و اصلاح کیلئے غیرمعمولی خانقاہی نظام تربیت کی بنیاد رکھی ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ بالخصوص سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی ؒ کی مساعی جمیلہ سے ہندوپاک کے طول وعرض میں اہل اسلام کی زندگیوں میں عظیم انقلاب پیدا ہوا ۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے تصنیف ’’تاریخ مشائخ چشت‘‘ میں مشائخ چشت کی تعلیمات اور انداز تربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مشائخ چشت علیھم الرحمہ کے ملفوظات ، تصانیف اور مکتوبات پر تحقیقی مواد پیش کیا ہے اور سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی کے ملفوظات بنام ’’فوائد الفؤاد‘‘ کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ چشتی بزرگوں کے طرف منسوب کچھ ملفوظات بالخصوص گنج الاسرار ، انیس الارواح ، دلیل العارفین ، فوائد السالکین ، اسرارِ اولیاء ، راحت القلوب اور مفتاح العاشقین پر کلام کیا ہے اور اپنے موقف کے اثبات میں سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الٰہیؒ ، حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلیؒ ، حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کا حوالہ دیتے ہوئے ان ملفوظات کی چشتی بزرگوں کی طرف نسبت کو غیرصحیح قرار دیا۔ چشتی اکابر کے ملفوظات میں خیرالمجالس سرور الصدور ، احسن الاقوال ، نفائس الانفاس ، جوامع الکلم ، انوارالعیون ، لطائف قدوسی ، فخرالطالبین اور نافع السالکین کو چشتی بزرگوں کی تعلیمات کا محور و ماخذ قرار دیا اور مزید کہاکہ صحائف السلوک ، بحرالمعانی ، مکتوبات اشرفی ، مکتوبات نور قطب عالم ، مکتوبات قدوسی ، مکتوبات کلیمی میں چشتیہ سلسلہ کی تعلیم کا نچوڑ ملتا ہے ۔
آخر میں تعمیر شخصیت سے متعلق مشائخ چشت قدس سرھم کے چند اقوال نقل کئے جاتے ہیں ۔
٭ مشائخ سلاسل کے اصلاحی طریقۂ کار میں توبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ گناہ کو ترک کرنے میں توبہ و استغفار نہایت ممد و معاون ہیں۔ حضرت محبوب الٰہی کا قول ہے : ’’توبہ اور انابت جوانی ہی میں ٹھیک ہے ورنہ بڑھاپے میں تائب نہ ہوگا تو اور کریگا ہی کیا ‘‘ ۔ ( فوائد الفواد ص : ۲۱۹)
٭ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی نے فرمایا : حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ انسان کب برا ہوتا ہے ؟جواب دیا: ’’اپنے تئیں نیک خیال کرے ‘‘ ۔ ( فوائد الفواد ص ۲۱۶)
٭ جو شخص ’’خودبینی ‘‘ اور ’’بدبینی‘‘ میں مبتلا رہتا ہے وہ دوسروں کی اصلاح کا کام قطعاً انجام نہیں دے سکتا ۔
٭ جس طرح اﷲ تعالیٰ ہرچیز سے بے نیاز ہوکر بندہ پر عطا و کرم کا دروازہ کھلا رکھتا ہے اسی طرح اس کے بندوں کو بھی کرنا چاہئے ۔ بقول حضرت خواجہ غریبنواز علیہ الرحمہ دریا جیسی سخاوت ، آفتاب جیسی شفقت ، زمین جیسی تواضع ہونی چاہئے ۔ ( سیرالاولیاء ص : ۴۶)
٭ مراقبہ سے متعلق شاہ کلیم اﷲ دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ دل کا نگران ہوتا ہے ۔ تین چیزوں سے دل میں مرض پیدا ہوتا ہے اول حدیث نفس ، دوسرا خطرات جو دل میں بلاقصد و ارادہ آتے جاتے ہیں تیسرا غیر کی طرف نظر ڈالنا … ان امراض کا علاج مراقبہ سے ہوتا ہے ۔ (کشکول کلیمی)
٭ ’’کسب کرنا مانع توکل نہیں ، اگر کوئی عیال دار کچھ کسب کرے اور نظر اس کے دل کی اس کسب پر نہ ہو بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو وہ متوکل ہے۔ (خیرالمجالس ص ۵۶)
٭ غصہ کے پی جانے سے معاف کردینا بہت بہتر ہے کیونکہ جو شخص غصہ پی جائے اور معاف نہ کرے تو ممکن ہے کہ اس کے دل میں کینہ جڑ پکڑ جائے ‘‘ ۔ (سیرالاولیاء ص : ۵۵۶۔۵۵۲)
٭ خدا تعالیٰ نے تجھے علم ، عشق ، عقل تینوں چیزیں عنایت فرمائی ہیں اور جو شخص ان تینوں چیزوں کے ساتھ موصوف ہو اُسے مشائخ کی خلافت سزاوار ہے ۔
٭ جو اوقات کی پابندی نہیں کرتا وہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان میں رہتا ہے ( مکتوبات کلیمی ص ۲۶) ٭ شاہ کلیم اﷲ اپنے خلفاء کو لکھتے ہیں : سب داخلانِ طریقت کو تاکید کریں کہ اپنا ظاہر شریعت سے آراستہ رکھیں اور باطن کو عشق مولیٰ سے سجائیں۔ ( مکتوبات کلیمی ص : ۵)
٭ ایک وقت کی نماز کا قضا یا فوت ہوجانا برسوں کے مجاہدے پر پانی پھیردیتا ہے ۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے : تاریخ مشائخ چشت )