شرجیل امام کی ضمانت کو دہلی کی عدالت نے کیانامنظور

,

   

نئی دہلی۔ ایک مقامی عدالت نے شرجیل امام کی 2019معاملہ میں متواتر درخواست ضمانت کو نامنظور کردیاہے‘ جس معاملے میں امام پر بھڑکاؤ تقریر کرنے کاالزام عائد ہے جس کی وجہہ سے دہلی کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے تھے‘ عدالت کا یہ احساس ہے کہ لہجہ اور نیت بھڑکاؤ تقریر کااثر عوامی سکون‘ امن اور معاشرے کی اہم آہنگی پر پڑا ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج انوج اگروال نے محسوس کیاکہ ”ہندوستان کے تمام لوگوں میں عام بھائی چارہ پھیلنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی اس ملک کے شہریوں پر بنیادی ذمہ داری ائین کے ارٹیکل 51اے(ای) کا یہ حصہ ہے‘ اورمذہبی‘ لسانی‘ علاقائی تنوع سے بالاتر ہوکر یہ کام کرنا ہے۔

لہذا ”اظہار خیال یا اظہار کی آزادی“ کے نام پر کسی بھی قسم کا بنیادی حق فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا ہے‘ جس سے سماج کی ہم آہنگی اور امن متاثر ہو“۔مزید مشاہدے میں یہ بات ائی ہے کہ آیا یہ تقریب ائی پی سی کی دفعہ 124اے کے تحت آتی ہے یا نہیں آتی ہے جس پر مناسب اندازمیں گہرا جائزہ درکار ہے۔

اس کیس کی حقیقت تو یہ ہے کہ 15ڈسمبر2019کے روزپولیس کو شہریت ترمیمی قانون (سی اے بی) کے خلاف جامعہ نگر کے مکینوں اور طلبہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ منعقد کرنے کی جانکاری ملی تھی۔یہ بھی الزام تھا کہ ہجوم نے ٹریفک کی حمل ونقل سڑک پر روک دی ہے اور عوامی‘ خانگی املاک‘ گاڑیوں کو لاٹھیو اور پتھروں اور اینٹوں سے حملہ کیاہے۔

مخصوص الزامات امام کے خلاف عائد کئے گئے کہ اس نے ایک مخصوص مذہبی طبقے کو حکومت کے خلاف سی اے بی او راین آرسی کے متعلق ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے اکسایا تھا۔

استغاثہ کے مطابق مذکورہ کہی گھی تقریر جو امام نے کی ہے وہ بھڑکاؤ‘ فرقہ وارانہ اورتقسیم کرنے والی ہے جس کامقصد دو مختلف مذاہب میں دشمنی کو بڑھاوا دینے تھا۔