شرمیلا ‘ تلنگانہ سے اے پی تک سفر

   

شامل ہے میرا غم بھی تیرے غم کے ساتھ ساتھ
مل جائے گی اسی سے سدا برتری مجھے
تلنگانہ میں وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی کا سیاسی سفر ایسا لگتا ہے کہ ختم ہوگیا ہے اور اب یہ سفر آندھرا پردیش کو موڑ دیا گیا ہے ۔ وائی ایس شرمیلا نے آج خود کانگریس میںپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور انہوں نے اپنی پارٹی وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی کو کانگریس میں ضم بھی کردیا ہے ۔ وائی ایس شرمیلا نے اپنے سیاسی سفر اور عزائم کا آغاز تلنگانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا تھا ۔ انہوں نے گذشتہ دو تا تین سال کے عرصہ میں تلنگانہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے ریاست میں کے سی آر حکومت کے خلاف مہم چلائی تھی ۔ حکومت کو بیروزگاری کے مسئلہ پر نشانہ بنایا تھا ۔ انہوں نے کئی اضلاع کے دورے کرتے ہوئے بھوک ہڑتال بھی کی تھی اور بیروزگار نوجوانوں سے اظہار یگانگت کیا تھا ۔ شرمیلا سابق چیف منسٹر متحدہ آندھرا پردیش ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی دختر ہیں۔ راج شیکھر ریڈی متحدہ آندھرا پردیش میں کافی مقبول رہے ہیں۔ ان کی مقبولیت کے اثرات اب بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرمیلا نے تلنگانہ سے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا ۔ انہوں نے تلنگانہ ہی میں اپنے سفر کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی کی تھی ۔ دو سال سے زیادہ عرصہ تک جدوجہد کرنے کے بعد شرمیلا نے تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس سے روابط استوار کرنے شروع کردئے تھے ۔ خاص طور پر کرناٹک میں کانگریس حکومت کے قیام کے بعد شرمیلا نے ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار سے ملاقات کی تھی جس کے بعد سے قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ شرمیلا کانگریس میں شامل ہونگی اور پارٹی کو بھی ضم کردیں گی ۔ انتخابات سے قبل یہ مرحلہ تقریبا طئے بھی ہوگیا تھا تاہم کانگریس پارٹی نے انتخابی امکانات کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے شرمیلا کی شمولیت کو التواء میں رکھا تھا اور صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے شرمیلا نے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کرنے سے بھی گریز کیا تھا ۔ اب جبکہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔ ریاست میںکانگریس حکومت قائم ہوچکی ہے ۔ ایسے میں شرمیلا کی پارٹی میں شمولیت کو آج دہلی میں مرکزی قائدین نے مکمل کرلیا ۔
حالانکہ شرمیلا ابتداء سے کانگریس میں شمولیت کے ارادے ظاہر کر رہی تھیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے انہیں تلنگانہ میں قسمت آزمائی کا موقع دینے کی بجائے انہیں آندھرا پردیش میں ذمہ داریاں سونپنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ اس طرح جو سفر شرمیلا نے تلنگانہ کی سیاست کو پیش نظر رکھتے ہوئے شروع کیا تھا اس پر تلنگانہ میں اچانک بریک لگ گیا ہے اور شرمیلا کے سیاسی سفر کا رخ آندھرا پردیش کی سمت موڑ دیا گیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں صورتحال دہچسپ ہوسکتی ہے کیونکہ شرمیلا کے بھائی وائی ایس جگن موہن ریڈی آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ہیں اور وہ ریاست میں مقبول بھی ہیں۔ اس کے علاوہ تلگودیشم پارٹی وہاں ایک مستحکم اپوزیشن بن کر ابھر رہی ہے ۔ کانگریس کا سیاسی وجود بہت کم یا برائے نام ہو کر رہ گیا ہے ۔ آندھرا پردیش اسمبلی میں دو معیادوں سے کانگریس کا ایک بھی رکن اسمبلی موجود نہیں ہے ۔ ایسے میں کانگریس نے شرمیلا کو ذمہ داری سونپنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ اس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ جگن کی بہن اور راج شیکھر ریڈی کی دختر ہونے کے ناطے شرمیلا سے بھی آندھرا پردیش کے عوام کی ہمدردی ہے ۔ ایسے میں وہ کانگریس کو عوام سے قریب لیجانے اور عوام کو کانگریس کے قریب واپس لانے کی جدوجہد کریں گی ۔ شرمیلا کی شمولیت کے ذریعہ کانگریس نے آندھرا پردیش میں اپنے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کی سمت پیشرفت کی ہے اور پارٹی اس کو مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش بھی کرے گی ۔
کانگریس پارٹی میں شمولیت کے بعد شرمیلا کو اب ساری توجہ آندھرا پردیش کی سیاست پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ریاست میں پارٹی کے امکانات کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی ۔ کانگریس نے جنوبی ہند میں اپنے مستحکم ہوتے وجود میں مزید جان ڈالنے کے ارادے سے شرمیلا کو ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تلنگانہ سے گاڑی کا رخ آندھرا پردیش کی سمت موڑ دیا گیا ہے جس سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں آندھرا پردیش کی سیاست میں بھی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں تاہم ریاست کے عوام کس جماعت کا ساتھ دینگے اور کس کو مسترد کردینگے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔