صدر ٹرمپ ۔ کم جونگ تاریخی مصافحہ

   

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
صدر ٹرمپ ۔ کم جونگ تاریخی مصافحہ
شمالی کوریا نے جولائی 2017 میں میزائیل تجربہ کر کے امریکہ کو انتباہ دیا تھا کہ اگر اس نے کسی بھی قسم کا ناعاقبت اندیشانہ قدم اٹھایا تو نتائج سنگین ہوں گے ۔ امریکہ نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے لینے کا بظاہر مظاہرہ نہیں کیا مگر داخلی طور پر یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی قسم کی سختی مناسب نہیں ۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے اس تجربے کو لاپرواہ اور خطرناک عمل قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی سفارتی سطح پر مذاکرات کی راہ کو کھول کر انہوں نے دانشمندی کا بھی ثبوت دیا تھا ۔ آج یہی دانشمندی انہیں شمالی کوریا کی سرحد تک پہونچائی ہے ۔ انہوں نے جاپان میں G-20 چوٹی کانفرنس میں شرکت کے بعد اتوار کو شمالی کوریا پہونچکر صدر کم جونگ اُن سے پیانگ یانگ میں ملاقات کی ۔ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ امریکہ کے کسی برسر اقتدار صدر کا پہلا دورہ ہے جس کا سفارتی اور بین الاقوامی سطح کے بعض گوشوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر سے گرمجوشانہ مصافحہ کرتے ہوئے اس ملاقات کو عظیم ترین دن قرار دیا ۔ 1950-53 کے درمیان شمالی کوریا اور امریکہ کی افواج کی جنگ نے جو نقوش چھوڑے ہیں ، اس کا عکس صدر ٹرمپ کے دورہ کے پیچھے واضح نہ سہی مدھم طور پر دکھائی دینے لگا ہے ۔ دونوں ملکوں کے افواج کی 1950-53 کی جنگ تو ختم ہوئی مگر یہ دونوں ممالک جنگ کی حالت میں ہی دکھائی دیتے رہے ہیں ۔ شمالی کوریا کے تعلق سے عالمی سطح پر یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے نیوکلیر اور میزائیلس پروگرامس کو جاری رکھا ہے ۔ شمالی کوریا کے میزائیل کے رینج میں آنے والے امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں نرمی لانے کا ہوشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز تک لانے کی کامیاب کوشش بھی کی ۔ اوساکا ، جاپان میں گروپ 20 ممالک کی چوٹی کانفرنس کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کا دورہ کر کے سب کو حیرت زدہ کردیا ۔ بلا شبہ اس دورہ سے دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی 70 سالہ پرانی خلیج کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے تو یہ ہر دو کے لیے مثبت تبدیلی سمجھی جائے گی ۔ ماضی کے غیر مندمل ہونے والے زخموں کو مندمل کرنے کی اس کوشش سے بہتری کی امید کی جانی چاہئے ۔ امن کے حق میں دو طاقتوں کے سربراہوں کا مصافحہ غیر معمولی قدم ہے ۔ شمالی کوریا نے اگر صدر ٹرمپ کے اس جذبہ کو خیر سگالی معنیٰ میں لے کر مذاکرات کی راہ کو ہموار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو مستقبل میں بہتر تعلقات کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن عالمی سطح پر صدر ٹرمپ کے دورۂ شمالی کوریا کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ آگے چل کر پتہ چلے گا ۔ فی الحال بعض گوشوں نے ٹرمپ اور کم جونگ کی ملاقات کو ایک تھیٹر کے ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں قرار دیا ۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہ اپنی اس ملاقات کے بعد پھر سے تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کے محاذ پر واپس ہوجائیں لیکن ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنی دوسری میعاد کی صدارتی مہم کے لیے اپنے رائے دہندوں کو مطمئن کرنے اور امن کا یقین دلانے کے لیے کچھ نہ کچھ مواد اکھٹا کررہے ہیں ۔ اپنے عوام کے سامنے اپنی حکمرانی کی مثبت کارکردگی کو پیش کرتے ہوئے دوبارہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ عالمی امن کا مسئلہ اس وقت شدت سے زیر بحث ہے ۔ حالیہ جی 20 کانفرنس میں شریک سربراہان مملکت میں سے کئی نے عالمی امن کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ نیوکلیر طاقت کے حامل ملکوں کو اپنے ہتھیاروں کو تلف کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے لیکن اب تک اس میں خاص کامیابی نہیں ملی ۔ شمالی کوریا کے متنازعہ نیوکلیر پروگرام کو ختم کرنے کے لیے بھی کوششیں کی جاچکی ہیں ۔ صدر کم جونگ اُن نے قبل ازیں اپنی نیوکلیر پالیسی میں تبدیلی لانے کا تیقن دیا تھا ۔ اس سلسلہ میں مذاکرات کو ترجیح دیتے ہوئے دونوں قائدین ٹرمپ اور کم جونگ نے سنگاپور میں بھی ملاقات کی تھی جس کو تاریخی قرار دیا گیا تھا ۔ اس مرتبہ خود صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کی جانب امن و مذاکرات کا گرمجوشانہ قدم اٹھا کر تاریخی مصافحہ کیا ہے تو اس مصافحہ کا لحاظ کرتے ہوئے بڑی تباہی پھیلانے والے نیوکلیر ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے عالمی مطالبہ کو پورا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی تعمیل بھی ہوگی ۔۔