صفورہ نے جیل میں گذرا وقت یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”خیال آتاتھا کہ یہ آخری ہے“

,

   

اس وقت 3ماہ کی حاملہ صفورہ کو دہلی میں ان کے گھر سے 10اپریل کی دوپہر میں گرفتار کیاگیاتھا
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور اسٹوڈنٹ جہدکار صفورہ زرغر کو پچھلے سال اپریل میں مخالف سی اے اے‘ این آر سی‘ این پی آر کے احتجاجی دھرنے میں جعفر آباد میں بھڑکاؤ تقریر کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیاگیاتھا۔

دہلی پولیس نے الزام لگایاتھا کہ پچھلے سال فبروری میں پیش ائے نارتھ ایسٹ دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کے سازشیوں میں وہ شامل ہیں اور یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیاتھا۔

دی کوئنڈ اور اسکورل کو دئے گئے اپنے سلسلہ وار انٹرویوز میں صفورہ نے اپنے ہیبت ناک عدالتی تحویل کی تفصیلات کا انکشاف کیاہے۔

اس وقت 3ماہ کی حاملہ صفورہ کو دہلی میں ان کے گھر سے 10اپریل کی دوپہر میں گرفتار کیاگیاتھا۔ صفورہ نے کہاکہ ”سب سے پہلی چیز میرے شوہر نے پولیس کو بتایا تھا کہ میں حاملہ ہوں“۔

تاہم مذکورہ پولیس نے گھر والوں سے کہاکہ یہ ”عام پوچھ تاچھ“ ہی ہے۔ تین ماہ تک عدالتی تحویل میں گذارنے کے بعد دہلی کی عدالت نے پچھلے جون میں انسانی بنیادوں پر انہیں ضمانت پر رہاکیاہے۔

گرفتاری کے پہلے دن صفورہ کو جعفر آباد کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں رکھا گیاجہاں پر کوئی خواتین کے لئے اسپیشل سل نہیں ہے۔

بعدازاں انہیں تہاڑ جیل منتقل کیاگیا جہاں سے تین ماہ کی عدالتی تحویل میں صفورہ کو بھیج دیاگیاتھا۔ تہاڑ میں پہلے 24گھنٹے صفورہ کو خصوصی سیلوں میں سے ایک جو مکمل طور پر تنہائی میں ہے اور جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اس کے اطراف واکناف میں قار دھار کانٹوں پر مشتمل تاریں نصب کئے ہوئے تھیں وہاں پر رکھا گیا۔

صفورہ نے کہاکہ ”سب سے مشکل حصہ تنہائی اور قیدتھا۔ جو نہایت ڈراؤنا تھا‘ خیال آتا تھا کہ یہ آخری ہے“۔اس کے بعد انہیں مختلف وارڈس میں روانہ کیاگیاہے اور 15دن تک کویڈ19پروٹوکال کا حوالہ دے کر مقفل رکھا گیا۔

اس کے بعد جیل میں لائے جانے والے لوگوں کو جیل میں گھومنے پھرنے کا موقع دیاجارہا تھا مگر انہیں مقفل رکھا گیاتھا۔

صفورہ نے اسکورل کو بتایاکہ”جب مجھے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیاگیاہے تھا‘ میں نے یہ مسئلہ اٹھایا۔ میں نے درخواستیں بھی لکھیں۔

مگر کوئی ردعمل نہیں ملا“۔ صفورہ کی یہ سخت قید 38دنوں تک جاری رہی‘ تنہائی کے اس وقت کو یاد کرتے پوئے صفورہ نے بتایاکہ دوسری جانب کیا ہورہا ہے اس کے متعلق انہیں کوئی جانکاری نہیں تھی۔ نیوز پیپرس اور ٹی وی تک ان کی کوئی رسائی نہیں تھی اور انہیں وکلاء سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

کوئی نہیں تھا جو اس سے بات کرے اور کوئی جانکاری فراہم کرے۔انہوں نے کہاکہ ”مجھے اس بات کی بھی جانکاری نہیں تھی کہ کس ایف ائی آر میں مجھے گرفتار کیاگیاہے“۔

انہیں بعد میں معلوم پڑا کہ یو اے پی اے کے تحت انہیں گرفتار کیاگیاہے۔ تنہائی کے اس وقت کے دوران قرآن شریف کی تلاوت او رپانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے سے انہیں کچھ سکون او رراحت مل رہی تھی۔

صفورہ نے کہاکہ انہیں حمل کے سلسلے میں بہت ساری الجھنیں پیدا ہوگئی تھی‘ حمل ساقط ہونے کی خوف تھا۔انہو ں نے کہاکہ ”میں بیت الخلاء جانے کے لئے ڈررہی تھی۔ مجھے خوف تھا‘ عام طور پر میرے دل کبھی نہیں دھڑکتا تھا“۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ جیل میں طبی سہولتوں کی کمی نمایاں تھی اور انہیں ضروری چیزیں بھی فراہم نہیں کی گئی تھیں۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ایک جوڑے کپڑے میں زیب تن کئے ہوئی تھی اور ایک جوڑے کپڑے میرے ساتھ تھے۔ وہ میری چپلیں لے کر چلے گئے تھے کیونکہ ہیلس کی اجازت نہیں تھی“۔

ان کے گھر والے پیسے بھیجنے سے قاصر تھے تاکہ وہ ضروری چیزیں خرید سکیں کیونکہ جیل انتظامیہ نے کویڈ19پروٹوکال کا حوالہ دیاتھا۔

ان کی رہائی کے بعد بھی حمل کامرحلہ کافی مشکلات سے گذرا ہے۔ انہوں نے پریس سے 8ماہ بعد بات کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ اب انہیں دوبارہ نارمل ہونے کا احساس شرو ع ہوگیاہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”کیونکہ میرے بچے اور صحت کے ساتھ پیدا ہوا ہے تو میں آب کچھ حدتک راحت محسوس کررہی ہوں۔ میں پڑھائی کررہی ہوں اور نارمل زندگی میں واپس ہورہی ہوں۔ او رمیرا بات کرنا میری نارمل زندگی کا ایک حصہ ہے“۔

جب جامعہ سے ایک حاملہ طالب علم کی گرفتاری کی خبر سوشیل میڈیا پر پھیلی تو صفورہ کو ٹرول کیاگیا او ریہ بھی الزام لگایاگیا اور اس بات کی بھی افواہیں پھیلائی گئی کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں۔

تاہم انہوں نے محض اس بات پر ردعمل دینے سے اس لئے ہی انکار کردیاکہ وہ شادی شدہ ہیں اور ”سنگل ماؤں کے لئے یہ ایک برائی کرنا ہوگا“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ وہ اپنی شادی کو ثابت کرنا نہیں چاہتے ہوں یا پھر اپنی ذاتی زندگی پر مباحثہ نہیں کرنا چاہتی ہوں۔

ان کے خلاف تہاڑ سے اس بات کی افواہیں بھی گشت کررہی تھی۔ انہوں نے کہاکہ ”ایک افواہ یہ بھی تھا کہ مجھے فسادات کو روبعمل لانے کی وجہہ سے گرفتار کیاگیا ہے او رمیں نے53ہندؤں کو مارا ہے اور میں کشمیری دہشت گردوں میں سے ایک ہوں“۔

حالانکہ مزید سکیورٹی کے استفسار پر انہوں نے غور کیامگر مزید تنہائی کے خوف نے اس سونچ کو مستر د کردیاتھا۔ مخالف سی اے اے‘ این آرسی‘ این پی آر احتجاجوں سے اپنی وابستگی کے متعلق صفورہ نے کہاکہ شروعات میں انہوں نے جامعہ کیمپس میں ان کے ساتھ اسٹوڈنٹس پر پولیس کی بربریت کے بعد وہ اس احتجاج کا حصہ بنی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پولیس کی بربریت کے واقعات کے بعد انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ملک کر تمام سیاسی جہدکاروں کو کیمپس کے تحت لاتے ہوئے احتجاج کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی تشکیل پر کام کیا۔

اپنے خلاف درج ایف ائی آر کے متعلق انہوں نے کہاکہ وہ کبھی بھی جعفر آباد کے احتجاجی مقام کی طرف گئی بھی نہیں ہیں۔

صفورہ نے کہاکہ ”کسی بھی احتجاج کے مقام پر کوئی بھی جاسکتا اور اس سے اظہار یگانگت کرسکتا ہے۔ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے“۔

حالانکہ ان کی طرح بے شمار لوگ اظہاریگانگت کے لئے وہاں گئے تھے۔انہوں نے کہاکہ ان کا ماننا ہے کہ ”ہر چیز کے لئے بلی کا بکرا“ انہیں بنایاگیاہے۔

صفورہ نے کہاکہ ہر احتجاج کو ملک سے غداری کے طور پر پیش کرنے کی طریقہ کار بند ہونا چاہئے اور موجودہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کس طرح سمجھائے اس کا طریقہ کار نہیں آتا ہے۔

اس کے علاوہ صفورہ نے خواتین جہدکار نودیپ کور اور دیشا روی کی زراعی قوانین کے خلاف احتجاج سے متعلق گرفتاری کا بھی تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی رائے کے ساتھ خواتین کے ساتھ کس طرح نمٹے اس کو حکومت کو اس بات سے واقفیت نہیں ہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”آسان راستے ان کے پاس انہیں مقدمات میں پھنسائیں‘ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں اور طویل مدت تک انہیں وہیں پر رکھیں“۔

مخالف سی اے اے مظاہروں کی طرف رخ کرتے ہوئے صفورہ نے کہاکہ مذکورہ مخالف سی اے اے تحریک اپنے کامیابی سے کسی قریب کے کافی دور ہے۔

انہوں نے کہاکہ ملک میں اسلام فوبیا کو اس احتجاج نے اجاگر کیاہے اور اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح حکومت مظاہرین کے ساتھ نمٹنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اس سے ہمیں مستقبل کے حالات سے مقابلہ کرنے کا مزید حوصلہ ملتا ہے اور ہمیں کس چیز کے لئے تیار رہنا ہے اس سے بصیرت حاصل ہوتی ہے“