ضررؔ وصفی کی شاعری : ایک اجمالی جائزہ

   

ڈاکٹر مجیر احمد آزاد (دربھنگہ)
موجودہ ادبی منظر نامہ جن شعراء کی تخلیقی توانائی اور تازگی فکر سے مزین ہے۔ ، ان میں ایک نمایاں نام ’’ضررؔ وصفی‘‘ کا ہے۔ ان کا شعری مجموعے ’’شب چراغ‘‘ (1992ء ) ، ’’نسبت بے ستون‘‘(2002ء) اور ’’حرف حرف لہو لہو‘‘ (2008ء) ان کی پرقوت اظہار یہ کا روشن باب ہے۔ یہاں سچائی ہے۔ مشاہدہ ہے، تسکین قلب اور راحت دل کا سامان ہے۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے دل پذیر شاعری کا ہیولی تیار ہوتا ہے۔ ضررؔ وصفی نے اپنے جذبات و احساسات بیان کرتے ہوئے ذات و کائنات کے رموز سے واسطہ رکھا ہے۔ ان کے یہاں شعر کبھی ذات کا نوحہ تو کبھی کائنات کا سچ بن کر قاری کو اثرانداز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی خوبی پیچیدگی سے گریز اور سادگی و برجستگی ہے۔ یہ سادگی اور خوش فکری ان کی شاعری کو وصف خاص عطا کرتی ہے جن کے سبب قاری کا وسیع حلقہ انہیں پسند کرتا ہے۔
ضررؔ وصفی کا دل انسانی عظمتوں کا قائل ہے۔ وہ تاریخ کی سچائیوں کو جانتے ہیں۔ شاہ و گدا کی تفریق کا انہیں علم ہے۔ حیات ِ ابدی کسے ملتی ہے، ان کا ان کو پتہ ہے۔ کم تر و برتر کا تصور اور ہمارا معاشراتی نظام شاعر کی آنکھوں میں اس طور موجود ہے کہ صرف انسان اور انسان ہماری فکر میں سما جاتا ہے۔ حسب نسب اور معاشرے کی کسوٹی پر ان کی نگاہ ہے۔ ان شعار سے آپ محظوظ ہویئے:
سینہ بہ سینہ یاد فقیروں کی رہ گئی
شاہوں کے نام صفحہ ہستی سے مٹ گئے
سربلندی کا فسانہ خاک پا ہوجائے گا
کل کھنڈر ہوگی عمارت راستہ ہوجائے گا
اُردو شعراء نے زندگی کو الگ الگ زاویئے سے برتا ہے۔ زندگی کبھی روزِ روشن کی طرح ہے، کبھی چھٹکی ہوئی چاندی، کبھی خواب ہے تو کبھی دیوانے کا خواب جیسی، کہیں کالی رات تو کہیں سوچ کر اداس ہونے والی بات، کہیں ترتیب تو کہیں انتشار، گویا زندگی ہمہ رنگ ہے جس نے جس طرح سوچا، جانا اور مشاہدہ کیا، اس کو بیان کرنے کی کوشش کی، جبھی تو زندگی اہم موضوع رہی ہے۔ شاعری کا۔ تو بھلا ضررؔ وصفی اس موضوع سے دامن کیوں بچاتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی ہر رنگ میں موجود ہے اور ہر رنگ سچا معلوم پڑتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
نہ کوئی جھیل نہ دریا نہ کنواں ہے اس میں
زندگی ہے کوئی تپتا ہوا صحرا جیسے
کب سکوں میں زندگی اچھی لگی
کرب، الجھن ، بے کلی اچھی لگی
زندگی کے اُتار چڑھاؤ شاعری میں اجاگر ہوتے ہیں تو ایک گونہ سرور حاصل ہوتا ہے۔ احساسات تجربے کی روشنی میں کارآمد معلوم پڑنے لگتے ہیں۔ حقیقت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے اور قاری دیر تک اس سے لطف اندوز ہوتا ہے اور غوروفکر میں غوطہ زن رہتا ہے۔
چھتری سے دور ہوکے کبوتر بھٹک گیا
اپنی حدود کو چھوڑ کے جایا نہ کیجئے
پرواز جب پروں میں سمٹ جائے گی میاں
منزل قریب آکے پلٹ جائے گی میاں
ضررؔ وصفی کی شاعری میں مجھے ’’جزیرہ‘‘ نے بار بار غور کرنے کی دعوت دی۔ یہ جزیرہ وسیع معنوں میں استعمال ہوکر ان کے شعری محاسن کا آئینہ بن گیا ہے۔ یہ ویران سمندر کے بیچ زندگی کی علامت بھی ہے اور آباد بستیوں کے درمیان اُجڑی ہوئی دنیا بھی۔ ضررؔ وصفی کی غزل سے چند اشعار پیش ہیں:
انہیں ذرات سے بنتے ہیں جزیرے وصفی
دشت کی ریت کو دریاؤں سے مل جانے دو
کتنے طوفانوں کا قصہ بولتا ہے
سمندر چپ جزیرہ بولتا ہے
ہم سفر سمندر کے کیا ہوئے خدا جانے
میں ہوں اِک جزیرے کا آدمی غنیمت ہے
غزل کے علاوہ ان کی ایک نظم ’’جزیرہ‘‘ آپ کے روبرو ہے۔ اس کی سادگی پر مٹ جایئے، ان کے اندر موجزن فکر کی گہرائی کا اندازہ کیجئے:
میں اک مغرور شہزادہ
الگ ہے سلطنت میری
کٹ کے رہ گیا ہوں ساحلوں سے
بنالی ہے الگ پہچان اپنی
(نظم ’’جزیرہ‘‘)
شاعر کا تیور دیکھئے اور ان کی فکری وسعت کا اندازہ کیجئے :
سمندروں کی طرح سے بھپر بھی سکتی ہے
حدوں کو توڑ کے ندی گزر بھی سکتی ہے
بقاء کا حکم بھی دے گا فنا کے بعد خدا
نہ مر سکے گا کوئی موت مر بھی سکتی ہے
ضررؔ وصفی کے یہاں آج کے معاشرے کی سچائی موجود ہے۔ کہنے کو تو ہم نے ترقی کی ہے مگر ہمارے شہر کا حال دیکھئے، مکانوں پر مکانات، زمین تا حد نگاہ عمارتیں، اس کے باوجود آشیانے کی کمی، مکان، اگر مل بھی جائے تو آنگن کا تصور محال، اب تو گنجلک آبادی عادت سی بن گئی ہے، شہر کے باشندوں کی۔ سب سے زیادہ روح فرسا آلودگی ہے۔ سانس بھی لینا دشوار ہے۔ صنعتی بازاروں نے انسان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مشینوں سے نکلتا ہوا دھواں اور ماحولیاتی آلودگی تازہ ہوا کے لئے آنگن، شاعری کا حصہ بنتے ہیں تو یہ خیال آتا ہے:
ترستے ہیں یہاں تازہ فضاوں کیلئے انساں
مکاں مل جائے بھی تو شہر میں آنگن نہیں ملتے
کوئی ہمدرد ہے باہم نہ محبت نہ خلوص
آدمی میری صدی کا ہے درندے کی طرح
بہت دشوار ہے اس شہر میں تو سانس لینا
فضاء میں زہر اگلتے جارہے ہیں کارخانے
ضررؔ وصفی کا درجہ ذیل شعر ممتا کی عظمت کا وہ دلکش اظہار ہے جس کا قائل ہر کس و ناکس ہے۔ ’’ماں‘‘ لفظ زبان پر آتے ہی طہارت و پاکیزگی کا جذبہ دلوں میں اُمڈ آتا ہے اور زندگی کی تیز دھوپ میں شیر خوار کے سر پر اپنا آنچل ڈالے ماں تصور میں متمکن ہوجاتی ہیں:
چادر سی تانے سر پر گھٹا میرے ساتھ ہے
صحرا میں آج ماں کی دعا میرے ساتھ ہے
ان کے یہاں پند و نصیحت کے اشعار دیکھئے جن میں جذبہ اُنس و ہمدردی چھپی ہوئی ہے:
پرواز کی جب تک کہ جسارت نہیں آتی
پر مارتے رہنے سے مہارت نہیں آتی
رکھو چراغ گھر میں تو باہر بھی روشنی
میں در کے مقابل میں ہوں محراب کی طرح
ضررؔ وصفی کی شاعری کا نمایاں رنگ ان کی غزلوں میں موجود ہے۔ ان کی نظموں کا تاثر بھی کم نہیں مگر میرا ماننا ہے کہ ان کی غزلیں اپنی خوش فکری، جدید حسیت اور تازگی کے سبب مقبول ہیں۔ جناب عشرت ظفر کے خیال سے میں متفق ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے…
’’ضررؔ وصفی کی شاعری ان کے فنی تشخص کو مکمل کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کی زرخیزیت و شادابیت میں بہرحال اپنی شخصیت، اپنی انفرادیت اور اپنے مزاج کے اسی رنگ کو تلاش کرلیا ہے جو صرف انہیں کا حصہ ہے۔ اس میں دسرے رنگوں کی آمیزش نہیں ہے۔ پگھلتے ہوئے، خوشبو دیتے ہوئے اور لو دیتے ہوئے، رنگ ان کے غزلیہ اشعار سے بے محابہ چھلکے پڑتے ہیں‘‘۔
(’’حرف حرف لہو لہو‘‘۔ ص:9)
ضررؔ وصفی کے یہاں تعلیٰ کے اشعار کا رنگ بھی الگ ہے۔ اگرچہ ان اشعار کو حقیقت کی کسوٹی پر پوری طرح کھرا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر ایسا بھی نہیں کہ ان کی شاعری حسن سے خالی ہے:
قیامت خیز ہنگامے ہیں پنہاں میرے شعروں میں
تڑپتی بجلیاں رہتی ہیں رقصاں میرے شعروں میں
لہجہ بھی تھا نیا مرے الفاظ بھی نئے
اکیسویں صدی کا قلم کار میں بھی تھا
ضررؔ وصفی کا کمال ہے کہ انہوںنے گل و بلبل کی گفتگو میں خود کو مست نہیں کیا بلکہ جدید حسیت کو اپنایا ہے۔ یہ وہ حس ہے جو شاعر کو اپنے گرد و پیش سے رشتہ بنائے رکھنے میں معاون ہے۔ وہ اس عہد کا حصہ ہیں۔ یہ جملہ تو سبھی قلم کاروں پر فٹ آتا ہے۔ اس سے اگلی منزل اس دور کے مسائل و حالات کا بیان ہے۔ ہم بھی جھوجھتے ہیں، نبردآزما ہوتے ہیں مگر ان کا اظہار کرنے والا تخلیق کار ہمارے درد کو سمیٹ لیتا ہے۔ فکری اعتبار سے ہمارا غم تخلیق میں شامل ہوجاتا ہے تو عہد نو کا احساس دل کے قریب تر ہوتا ہے۔ یہی کمال اس دور کے مشہور شاعر جناب ضررؔ وصفی کا ہے۔٭