عالمی معاشی صورتحال اور ہندوستان

   

دل کھنڈر سا ہوگیا ہے شورشِ حالات سے
دیکھنا یہ گھر بھی اک دن راستہ ہوجائے گا
دنیا کی ترقی اور پیشرفت کیلئے معیشت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ آج دنیا بھر میں جو معاشی حالات ہیں وہ ابتر کہے جاسکتے ہیں ۔ دنیا بھر میں اہمیت رکھنے والے ممالک کی صورتحال میں مسلسل گراوٹ آتی جارہی ہے ۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ درج ہورہا ہے ۔ بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ دنیا کی ٹاپ کلاس اور بڑی کمپنیاں مسلسل اپنے ملازمین کی تعداد میں تخفیف کرتی جارہی ہیں ۔ لوگ کثیرتعداد میں بیروزگار ہورہے ہیں ۔ معاشی صورتحال میں گراوٹ کے جو عوامل ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ آیا ہم آج کی جو حالت ہے اس میں بنیادی مسائل پر غور کرنے یا ان کو حل کرنے کی کوشش کی بجائے اڈھاک بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معیشت بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی جارہی ہے ۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل برطانیہ کی حالت دنیا کے سامنے ہے ۔ وہاں اخراجات زندگی اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ لوگ بنیادی ضروریات کی تکمیل سے بھی قاصر نظر آتے ہیں ۔ شائد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ برطانوی عوام برقی فیس بنیادی ضرورت کا استعمال تک موثر ڈھنگ سے نہیں کرپارہے ہیں اور اس کیلئے بھی ایک ٹائم ٹیبل بنانا پڑ رہا ہے ۔ غذائی عادات کو بدلنے پر لوگ مجبور ہورہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے مزید بوجھ عائد کیا جارہا ہے۔ حکومتیں خود اپنی جانب سے کسی طرح کی راحت فراہم کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہیں۔ برطانیہ کی صورتحال کے تعلق سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یوکرین۔ روس جنگ نے بوجھ عائد کردیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ یوکرین ۔ روس جنگ نے دنیا بھر کیلئے مشکل حالات پیدا کردیئے ہیں تاہم جہاں تک مغربی ممالک کی بات ہے وہ روس کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں اپنے عوام پر بوجھ عائد کررہے ہیں ۔ توانائی اور فیول کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں ۔ مغربی ممالک اور خاص طورپر امریکہ اور برطانیہ مسلسل یوکرین کی فراخدلانہ امداد جاری رکھے ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ حکومتوں کی ترجیحات میں ان ممالک کے عوام پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور وہ مہنگائی کی مار سہنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں ۔ ان ممالک کی حکومتوں کو اس جانب توجہہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے دنیا بھر میں معیشت کی ترقی اور پیشرفت کے جو اندازے جاری کئے ہیں وہ بھی قابل تشویش ہیں۔ عالمی سطح پر شرح ترقی 2.9 فیصد ہونے کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں ۔ یہ شرح ترقی منفی اور مشکل معاشی حالات کی عکاس ہے ۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اس مشکل صورتحال میں ہندوستان کو اُمید کی کرن قرار دیا ہے ۔ ہندوستان میں بھی شرح ترقی حالانکہ زیادہ ہونے کی اُمید نہیں ہے ۔ ہندوستان میں جو حالات ہیں وہ بھی زیادہ مثبت نہیں کہہ جاسکتے ۔ ہندوستان میں حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے کی بجائے حالت کو صرف بہتر ظاہر کرنے پر توجہہ دے رہی ہے ۔ حقیقی معنوں میں معیشت کے استحکام اور تیز رفتار ترقی کے اقدامات نہیں ہورہے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی مہنگائی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ بیروزگاری ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ یہاں بھی کئی اداروں کی جانب سے ملازمتیں فراہم کرنے کی بجائے ان میں کٹوتی کی جارہی ہے ۔ حکومت کا جہاں تک تعلق ہے وہ بھی چند ہزار نوکریاں دیتے ہوئے ان کی اس انداز میں تشہیر کرنے میں مصروف ہے کہ سیاسی فائدہ اُٹھایا جاسکے ۔ ٹھوس اقدامات کی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی صنعتی پیداوار اور انفراسٹرکچر کے استحکام کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ صورتحال نہ ملک کے عوام کیلئے بہتر ہے اور نہ ہی اس کو دنیا بھر کیلئے اُمید کی کرن کہا جاسکتا ہے۔ جو پیش قیاسیاں کی جارہی ہیں ان سے کسی طرح کی مثبت تبدیلی کی اُمیدیں کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے ۔ موجودہ حالات میں دنیا بھر کے عوام ہی ہیں جو معاشی ابتری کی مار سہنے پر مجبور ہیں ۔ حکومتوں کی اپنی ترجیحات اور پالیسیاں ہیں وہ اپنے امیج کو بہتر سے بہتر بنانے کی حکمت عملی اختیار کرتی ہیں لیکن معاشی سرگرمیوں کو یقینی بنانے اور اس کی ترقی کو آگے بڑھانے پر توجہہ دینے کی ضرورت ہے ۔لمی اداروں کو بھی چاہئے کہ عوام کی حالت اور حقیقی معاشی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومتوں کے ساتھ منصوبہ سازی کریں۔ حکومتوں کو اس بات کیلئے راضی کیاجائے کہ وہ تشہیر کی بجائے حقیقت میں معیشت کو بہتر بنانے اقدامات کریں۔ عوام پر بوجھ عائد کرنے کے فیصلوں کی بجائے اُنھیں راحت پہونچانے پر توجہہ کریں۔ عوام کی حالت میں بہتری اور مثبت معاشی منظرنامہ ساری دنیا کیلئے ضروری ہے اور اسی کے مطابق اقدامات کئے جانے چاہئیں۔