عبادتگاہوں کی برقراری کا قانون

   

گھر میں مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
عبادتگاہوں کی برقراری کا قانون
ملک میںمذہب کے نام پر قوانین سے کھلواڑ کرنا عام بات ہوگئی ہے ۔ لا قانونیت کو مذہب سے جوڑتے ہوئے یا عقیدہ کا نام دیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ ملک کی ترقی اور امن و امان پر توجہ دینے کی بجائے قانون کو بگاڑنے کا کام کیا جا رہا ہے ۔ سماج میں نفرت پیدا کی جا رہی ہے ۔ سماج کے دو بڑے طبقات کے مابین دوریاں اور خلیج پیدا کی جا رہی ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کا دشمن بنایا جا رہا ہے ۔ مذہبی مقامات اور عبادتگاہوں پر دعوے کرتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ بابری مسجد مسئلہ کو عدالت کے ذریعہ آستھا یا عقیدہ کے نام پر حل کئے جانے کے بعد فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اب وہ دوسری مساجد کو نشانہ بنانے پر تل گئے ہیں۔ اس کیلئے عدالت کا سہارا لیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی عبادتگاہ کے تعلق سے دعوی کرنا خود ملک کے قانون کے خلاف ہے ۔ ہندوستان میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت 15 اگسٹ 1947 کو جس کسی عبادتگاہ کا جو بھی موقف تھا اسے برقرار رکھا جائے گا ۔ تاہم اب اس قانون سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور گیان واپی مسجد پر دعوی کرتے ہوئے مقامی عدالت کے ذریعہ احکام جاری کردئے گئے ہیں۔ یہاں عقیدہ یا آستھا کو ہی ایک بار پھر بنیاد بنایا جارہا ہے ۔ حالانکہ جو قانون ملک میں 1991 میں بنایا گیا تھا اس کے تحت کسی بھی عبادتگاہ کے موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ فریقین کے نمائندے بھی عدالتوں میں اس قانون کے تحت پیروی نہیں کر رہے ہیں اور جو مخالف وکلاء ہیں وہ صرف الٹ پھیر اور نت نئے دعووں کے ذریعہ عدالتوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جو قانون 1991 میں بنایا گیا تھا اس کے تحت صرف رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد مسئلہ کو اس سے استثنی دیا گیا تھا ۔ تاہم اب دوسری مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے مہم شروع کردی گئی ہے اور اس کے ذریعہ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور پھر جو احکام جاری کئے جا رہے ہیں اسے بھی قانون کا ہی نام دیا جا رہا ہے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سارا ملک جانتا ہے کہ ملک میںاس طرح کا قانون موجود ہے اس کے باوجود اپنے بے بنیاد دعووں کو منطقی موقف دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں یہ لوگ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ آج ملک میں جو حالات ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ سبھی گوشے ملک کی ترقی اور بہتری کیلئے کام کریں۔ نزاعی اور اختلافی مسائل کو فراموش کردیا جائے ۔ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا موقع نہ دیا جائے ۔ معیشت کے استحکام کیلئے کام کیا جائے ۔ بیروزگاری کو دور کرنے کیلئے حکمت عملی اختیار کی جائے ۔ مہنگائی کو کم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے اقدامات کئے جائیں۔ عوام پر جو مسلسل بوجھ عائد کیا جا رہا ہے اس کو ختم کرتے ہوئے انہیں راحت پہونچانے کی سمت کوششیں کی جائیں۔ تاہم ان تمام اہم مسائل کو کہیں پس پشت ڈالتے ہوئے مذہبی کو سہارا بناتے ہوئے آئندہ انتخابات کی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ بابری مسجد مسئلہ کو کئی برسوں سے سیاسی ترقی کیلئے بی جے پی نے استعمال کیا ۔ کچھ عناصر نے اس میں بی جے پی کی ممکنہ حد تک بالواسطہ مدد بھی کی ۔ اب جبکہ بابری مسجد مسئلہ کو عدالت کے ذریعہ آستھا کے نام پر حل کردیا گیا ہے تو پھر دوسری مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ ان مساجد کا موقف برقرار رکھنے سے متعلق ملک میں قانون موجود ہے ۔ حکومتوں کو اس قانون کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا کیا نہیں جا رہا ہے ۔
مسلمانوں کے جو نمائندے ایسے مسائل میں فریق ہیں انہیں اس قانون کو بنیاد بناتے ہوئے عدالتوں میں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف بیان بازیاں کرنے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں عدالتوں میں پیروی کرتے ہوئے اپنے موقف کو موثر اور مدلل انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ جو سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے اس کو یہیں پر روکا جانا چاہئے ۔ ملک کے ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلئے سبھی گوشوں کو سنجیدہ کوششیں کرنے اور عبادتگاہوں اور مساجد کا تحفظ کرنے اور ان کا موقف جو آزادی کے وقت تھا اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔