علامہ مفتی عبدالحمید علیہ الرحمہ

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبدالحمید علیہ الرحمہ کی شخصیت اہل دکن کیلئے محتاج تعارف نہیں، آپ کی علمی، ادبی، سماجی، فلاحی، رفاہی خدمات کا عظیم دائرہ ہے جس کا احاطہ مشکل ہے، کوئی فن ہو کوئی کتاب، آپ کے سامنے شروع کی جاتی تو سیر حاصل بحث ہوتی اور دل نشین تفہیم ،اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہر فن میں یدطولیٰ عطا فرمایا تھا۔ طلبہ پر بڑی عنایت رہتی انداز تدریسی ایسا کہ ہر صلاحیت کا طالب علم مضمون کتاب کو سمجھ لیتا ، طلبہ کا آپ کے اطراف ہجوم رہتا، اصابت رائے ایسی کہ سامنے والا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ انتظامی صلاحیت بھی خوب تھی، تعبیر رویا (خوابوں کی تعبیر) میں بڑا کمال حاصل تھا۔ امیر ملت اسلامیہ حضرت علامہ مفتی عبدالحمیدؒ کے نام نامی سے عوام و خواص جانتے تھے جس کے آباء و اجداد علم و معرفت کے آفتاب و ماہتاب تھے، جس شخصیت نے بیک وقت عالمی ادارۂ تحقیق دائرۃ المعارف العثمانیہ، ازہر ہند جامعہ نظامیہ ،امارت ملت اسلامیہ، مجلس علماء دکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، رویت ہلال کمیٹی، مجلس احیاء المعارف النعمانیہ، مجلس اشاعت العلوم جیسے سینکڑوں اداروں کی تن من دھن سے خدمت کرتے ہوئے اپنی جان، جان آفریں کو سونپ دی۔ 1323 فصلی محلہ مغلپورہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو علم و فن اور اسلامی تعلیمات و افکار کا گہوارہ تھا۔ آپ کے والد حضرت علامہ محمد حسینؒ بڑے پایہ کے عالم تھے۔ آپ کے دادا حضرت محمد حسین شاہنواریؒ میسور کے جلیل القدر علماء میں شمار کئے جاتے تھے۔ حضرت قبلہؒ کا سلسلہ نسب خلیفہ المسلمین اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے جد اعلیٰ عرب سے افغانستان منتقل ہوئے اور وہاں سے ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا اور ریاست میسور کے شہر سری رنگاپٹنم میں سکونت اختیار کی۔ بعدازاں شاہ نورکو اپنا وطن ثانی بنالیا اور وہیں رہنے لگے جو آج کل ریاست کرناٹک میں واقع ہے حضرت مفتی عبدالحمیدؒ کے دادا حضرت محمود شاہ نوری نے آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کے عہد حکومت میں حیدرآباد دکن کا رُخ کیا، اپنی پرکشش شخصیت اور تبحر علمی کے باعث جامعہ نظامیہ میں بحیثیت استاذ آپ کی خدمات علمی و تدریسی سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ حضرت قبلہؒ نے تعلیم کے ابتدائی مراحل کی تکمیل اپنے والد بزرگوار حضرت مولانا محمد حسینؒ سے کی۔ بعدازاں اعلیٰ دینی و اسلامی تعلیمات کی تحصیل کیلئے ایشیا کی معروف دانش گاہ ازہر ہند ’’جامعہ نظامیہ‘‘ میں شریک کئے گئے جہاں آپ نے استاذ العلماء، سند المحقق حضرت علامہ سید ابوالوفا الافغانی علیہ الرحمہ، شیخ المحدثین، سندالعلماء حضرت علامہ شیخ محمد یعقوب علیہ الرحمہ جیسے عظیم المرتبت اساتذہ سے حاصل فرمائی اور درس نظامی کی تکمیل کی اور اپنے معاصرین میں ممتاز علمی مقام کے مالک ہوگئے۔ حضرت مفتی عبدالحمیدؒ ایک ایسے منفرد عالم تھے جن کی تنہا ایک ذات میں تفسیر قرآن، حدیث و علوم حدیث، اُصول تفسیر، اُصول حدیث، اُصول فقہ، بیان، معانی، ادب، شعر و سخن میں کامل عبور تھا۔وہ اپنے زمانے کے ایسے مفسر تھے جن کا سینہ وحی کے اسرار اور قرآن کریم کے شان نزول کی باریکیوں اور لطافتوں سے معمور تھا۔ اس کے علاوہ عربی ادب، نثر ہوکہ نظم دونوں میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا، علوم معقولات و منقولات کے آپ جامع و مانع تھے۔ اسرار، معاف، حقائق و وقائق میں بھی آپ اپنے دادا استاذ حضرت شیخ الاسلام و المسلمین عارف باللہ امام اہل سنت الامام الحافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ و الرضوان بانی جامعہ کا جلوہ خاص تھے۔ طبقات محدثین و فقہا پر آپ کی وقت نظری قابل دید تھی۔ اصول اور محکمات میں مہارت نامہ حاصل تھی۔ اختلاف رائے کی صورت میں آپ صبر و تحمل کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ ارباب علم و فضل آپ کی دانش مندی اور تبحر علمی کے معترف تھے اور آپ کی حسن تنظیم جدید و تدبیر کے قائل تھے ۔ صرف علوم متداولہ میں ہی آپ کو مہارت نہیں تھی بلکہ علم فرائض (میراث و ترکہ) علم العروض ، شعر، قافیہ اور فلسفہ سے بھی آپ بخوبی واقف تھے۔ منطق و حکمت کا آپ کو امام کہا جاسکتا ہے۔ علوم ظاہری و باطنی کا چشمہ ٔصافی تھے اور کسی بھی نوعیت کا سوال ہو، اس کا جواب آپ کی زنبیل علم میں موجود ہوتا تھا۔ علوم و فنون کی تحصیل سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ہی آپ نے مسند درس و تدریس کو زینت بخشی۔٭