عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے

   

رمضان المبارک اور عید الفطر… لاک ڈاؤن کی نذر
کورونا … وائرس یا قہر خدا وندی

رشیدالدین
کورونا کے نام سے قہر خدا وندی نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک معمولی وائرس نے ساری دنیا کو لاک ڈاؤن کے تحت کچھ ایسا بند کیا جیسے دنیا تھم سی گئی ہو اور ہر کوئی ساکت اور جامد ہوگیا۔ کورونا جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا، ایک معمولی وائرس کے سوا کچھ نہیں۔ ایک وائرس جب دنیا بھر کو مفلوج کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طاقت کا کیا اندازہ کیا جاسکے گا۔ ایک وائرس کے ذریعہ خالق کائنات نے انسانیت کو راہ راست پر آنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اگر اس مہلت کو غنیمت جان کر ہم نیکی اور بھلائی کے راستہ پر گامزن نہ ہوں تو شائد پھر ایسی مہلت بھی نہ ملے۔ کورونا کو لے کر دنیا میں طرح طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ سائنسدانوں اور سیاستدانوں کی الگ الگ رائے ہے۔ اب جبکہ دنیا کورونا کا علاج ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئی تو کہا یہ جارہا ہے کہ انسان کو کورونا کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لینا چاہئے ۔ دنیا بھلے ہی کچھ کہے لیکن اہل دل اور اہل نظر علماء اور اکابرین کی نظر میں کورونا ایک قہر خدا وندی ہے جو اعمال کا نتیجہ ہے۔ بندوں سے خالق حقیقی کی ناراضگی کا اندازہ کرنے کیلئے کیا یہ کافی نہیں کہ انسانوں کو عبادت گاہوں سے بھی دور کردیا گیا ۔ گویا کہ یہ عبادت بارگاہِ خدا وندی میں قبولیت کے لائق نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر سزا کیا ہوسکتی ہے کہ مسلمان گزشتہ دو ماہ سے مساجد میں سر بہ سجود ہونے سے محروم ہیں۔ کورونا نے دنیا بھر میں رمضان المبارک کی رحمتوں اور رونقوں کو چھین لیا ہے ۔ مکمل ماہِ صیام اور عیدالفطر لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئی۔ کوئی عبادت تو کوئی تجارت سے محروم ہوگیا۔ مساجد میں جہاں رمضان کے دوران عبادت گزاروں کا ہجوم ہوتا، آج مساجد سنسان پڑی ہے اور بارگاہ خدا وندی میں سجدہ ریز ہونے والوں کی راہ تک رہی ہیں۔

مؤذن پانچ وقت حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی آواز تو لگا رہے ہیں لیکن چاہ کر بھی مسجد کی جانب قدم نہیں بڑھاسکتے۔ کیا یہ ہمارے لئے عبرت اور نصیحت کا مقام نہیں ہے؟ مساجد سے دوری اور عبادتوں سے محرومی کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہے۔ ہاں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ عید کی خریدی نہیں ہوسکی۔ تاجروں کو اپنے نقصان پر افسوس ہے لیکن رمضان کے روحانی اور نورانی ماحول سے محرومی کا کوئی غم نہیں ۔

عید سے عین قبل تحدیدات میں نرمی کیا مل گئی کہ بازار سج گئے اور خریداروں کا ہجوم امنڈ پڑا۔ کل تک لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں جو لوگ کھانے اور اناج کیلئے اہل خیر حضرات کی طرف دیکھ رہے تھے، ان کے پاس رمضان کی شاپنگ کیلئے پیسہ اچانک کہاں سے آگیا۔ دراصل امت مسلمہ میں بقول علامہ اقبال احساس زیاں جاتا رہا، جس کے نتیجہ میں بے حسی عروج پر ہے۔ کورونا نے ایک طرف حکومتوں کو قلاش کردیا ہے تو دوسری طرف صنعتوں اور تجارتی اداروں کو کاروبار اور منافع سے محروم کردیا ۔ حکومت بھلے ہی پیکیجس کا اعلان کرے لیکن معیشت کے پٹری پر آنے کئی برس لگ جائیں گے ۔ مالیاتی خسارہ کے ساتھ بڑے پیمانہ پر جانی نقصانات کے بعد موت کے خوف نے انسان کے درمیان فاصلے پیدا کردیئے ۔ حتیٰ کہ خونی رشتے بھی ایک دوسرے سے دوری اختیار کرچکے ہیں۔ یہ نقصانات اور دوریاں دراصل دعوت فکر دیتی ہیں۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ آخر یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی ۔ انسان جس کورونا سے خوفزدہ ہے، کاش اگر اپنے خالق و مالک سے ڈرتا تو شائد یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی قلب خوف الٰہی سے محروم ہوجائے تو اس میں طرح طرح کے خوف جمع ہوجاتے ہیں اور وہ کبھی بھی اس دنیاوی خوف سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ جس دل میں خشیت الٰہی ہو، اسکے سامنے دنیا کا کوئی بھی خطرہ پانی کے بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے بحران کے ماحول میں بھی ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے ہم سے روٹھنے کی کیا وجہ ہے۔ آخر کن گناہوں اور نافرمانیوں کی سزا کورونا کی صورت میں مل رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دو ماہ مکمل ہونے کے باوجود ہمیں اس بات کی فکر نہیں کہ روٹھے ہوئے اللہ کو کیسے منائیں۔ کسی بھی معاملے میں امید ہو کہ خوف صرف اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہئے ۔ لیکن آج ہم ہر کسی سے امید وابستہ کرلیتے ہیں اور دنیا سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ، ’’بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے ناامیدی‘‘۔ مساجد اور حرمین شریفین سے دوری سے بڑھ کر اور کوئی سزا مسلمانوں کیلئے نہیں ہوسکتی۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کورونا وائرس سے زیادہ مساجد سے دوری باعث تشویش ہے ۔ حرمین شریفین جہاں عبادات پر روک کا کوئی تصور نہیں تھا، وہاں رمضان کی عبادت بھی محدود ہوچکی ہے۔ عمرہ اور طواف کا سلسلہ بند ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے اپنے گھر اور اپنے محبوبؐ کے روضہ اقدس کی زیارت سے محروم کردیا ۔ اب تو حج کی ادائیگی بھی محدود کئے جانے کا اندیشہ ہے ۔ ہمیں روٹھے ہوئے خدا کو منانے کی فکر کرنی چاہئے ۔ ہم جانی و مالی نقصان پر رو پڑتے ہیں لیکن اللہ کے خوف سے آنکھیں اشکبار نہیں ہوتیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو وہ آنکھ پسند ہے جو اس کے خوف میں آنسو بہائے۔ بارگاہِ الٰہی میں عجز و انکساری کے ساتھ رجوع ہوکر خشیت الٰہی میں آنسو بہاتے ہوئے گڑگڑاکر دعا کے ذریعہ موجودہ بحران سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے ۔ کورونا سے خوف سے زیادہ ہمیں اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے ۔ جب دعا دل سے نکلے گی تو رحمت الٰہی کو یقیناً جوش آئے گا اور انسانیت کو اس وائرس سے نجات مل سکتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے دو ماہ مکمل ہونے کے باوجود نہ ہی وائرس کے کیسس میں کمی آئی ہے اور نہ غریب و متوسط طبقات کو کوئی راحت ملی۔ لاکھوں مائیگرنٹ لیبرس پریشان حال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ پیدل طئے کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود رواں دواں ہیں۔ فاقہ کشی اور شدید دھوپ کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے غریب لیبرس حکومت کی امداد کی پرواہ کئے بغیر چل پڑے ہیں۔ راستے میں کئی حادثات نے ورکرس کی جان لے لی، کئی سفر کی مشکلات برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوگئے۔ راستے میں کئی خواتین کی ڈیلیوری کے واقعات پیش آئے ۔ پیروں میں چھالے اور گود میں معصوم بچوں کو اٹھائے جنون کی طرح یہ غریب اپنے گھروں کی طرف چل پڑے ہیں۔ ٹرین اور بس کی فراہمی کی باتیں محض دکھاوا ثابت ہوئیں۔ حکومت نے 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان کیا لیکن عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک میں کورونا کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ لیکن پھر بھی حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی اور تجارتی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام کی زندگی سے زیادہ معیشت کو سدھارنے کی فکر ہے۔ دیگر ممالک میں واقعات میں کمی کے بعد لاک ڈاون میں نرمی دی گئی لیکن اب تو ہندوستان معمول کی زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ٹرین اور فضائی سفر بھی بحال کردیا گیا ۔ کورونا سے مسلمانوں کو جوڑتے ہوئے جو عناصر سرگرم تھے ، ان کو اب کورونا کی سزا مل رہی ہے ۔ مسلم دشمنی میں پیش پیش ایک چیانل کے دفتر میں کورونا گھس گیا اور دفتر کو مہربند کرنا پڑا۔ ایک اور اینکر خود کو گرفتاری سے بچانے کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہے۔ ایک قائد جو کورونا سے بچنے سیلف کورنٹائن ہوگئے تھے، کورونا کے کیسس ان کے محل کے اطراف پہنچ چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کورونا سے جوڑنے والوں کا کورونا تعاقب کر رہا ہے۔ ممتاز شاعر منظر بھوپالی نے موجودہ حالات پر یہ تازہ اشعارکہے ہیں ؎

درد بکھرا ہوا سڑکوں پہ نظر آتا ہے
دھوپ سے پیاس سے انسان مرا جاتا ہے
پاؤں میں چھالے ہیں ، آنکھوں سے لہو رستا ہے
جو بھی منظر ہمیں دکھتا ہے وہ تڑپاتا ہے
ہائے مزدوروں کا یہ درد بتائیں کیسے
عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے