عید الفطر ہمارے حق میں عید سعید بن جائے

   

ابوزہیر سید زبیرہاشمی نظامی، معلم جامعہ نظامیہ

موجودہ حالات میں ہم تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جو بھی کام ہم کریں، رب کی رضا کیلئے کریں اور حبیب مصطفی ﷺ کی خوشنودی کیلئے کریں۔ اسوقت ہم مسلمان، عیدالفطر کو بڑی سادگی سے منائیں۔ ہماری ریاست، ہمارا ملک موجودہ مہلک مرض سے پریشان ہے۔ ایسے وقت میں کوئی عمل ہم سے ایسا نہ ہونے پائے، جسکی وجہ سے ہمیں پریشانی اٹھانی پڑے۔ اللہ تعالیٰ اس عیدالفطر کو ہم مسلمانوں کے حق میں عیدسعید بنادے۔
عید الفطر ایک ایسی عظیم عید ہے کہ جس کی مثال کسی اور عید میں نہیں ملتی، اب اس عید کو عید اسلئے کہتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر خوشی اورشادمانی کو بار بار لاتا رہتا ہے ۔ اور یہ عید عود سے ہے جس کے معنی ہیںباربار لوٹ کرآنا۔چنانچہ بعض علمائے کرام اس کی وجہ تسمیہ یہ بتلائے ہیں کہ عید اسلئے کہاجاتا ہے کہ اس دن اﷲتعالیٰ مسلمانوں سے یہ فرماتاہے کہ ائے مسلمانو ! اب تم مغفور یعنی بخشے ہوئے ہو اور اس حالت میں تم سب اپنے اپنے گھر لوٹ جاؤ۔

ہم مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اﷲتعالیٰ نے ہم کو خیر امت بنایا ہے تو اس کا ہمیں حق اداکرنا چاہئے، حق یہ ہے کہ ہر حال میںاﷲتعالی کا شکر اداکرتے رہیں۔ اﷲتعالی اور حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی اطاعت وفرمابرداری کو ہمیشہ اپنے اوپر لازم کرلیں۔عبادت کریں تو اخلاص کے ساتھ ، روزے رکھیں تومولا کی رضا کیلئے ، عیدالفطر ہمارے حق میں عید سعید بن جائے ۔ وعید سے اجتناب کرنے کی کوشش کریں۔
عید الفطر کا دن اﷲسبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کی طر ف توجہ فرماتاہوے ارشاد فرماتاہے کہ ائے بندو!تم ماہِ رمضان میں میرے لئے روزے رکھے، نمازیں پڑھے۔ اب تم اپنے گھر اس حالت میں واپس جاؤ کہ تم سب بخش دئے گئے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ نوش فرماکر نماز عید الفطر ادا فرماتے۔
ترمذی شریف میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ عید کی نماز کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل تشریف لے جاتے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے، اس سے واپس نہیں ہوتے، بلکہ دوسرا راستہ اختیار فرماتے تھے، تاکہ تمام مسلمانوں کا اتحاد بہت مضبوط ہوجائے۔

عید الفطر کی نماز کے بعد کی خصوصی دعاء میں لوگ جہاں اپنی عافیت، راحت اور مغفرت کے لئے دعاء کرتے ہیں، وہیں سارے عالم کے مسلمانوں کی راحت، عافیت، نجات، کامیابی اور شعور و بصیرت کی توفیق کی بھی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اہل ایمان اور مسلمان سب کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ عید کی نماز کے لئے حاضر ہونے والے ان بندوں سے خطاب ہوتا ہے کہ ’’اے میرے بندو! جو تم کو مانگنا ہے مانگو، تم آخرت کی جو بھی چیز مانگو گے میں ضرور تم کو عطا کروں گا اور دنیا کے متعلق بھی جو تم دعاء کرو گے، اس کے بارے میں خود تمہاری ہی مصلحت پر نظر کرکے تمہارے لئے بہتر فیصلہ کروں گا۔ میرے زور و قوت کی قسم! تم جب تک میرا اور میرے احکام کا خیال رکھو گے، میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا اور میرے عزت و جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے رسواء نہیں کروں گا، اب تم بخشے بخشائے گھروں کو واپس ہو جاؤ۔ تم نے ماہ رمضان میں مجھے راضی کردیا اور میں تم سے خوش ہوں۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج عید کی مرادوں سے دامن بھر لیتے ہیں اور وہ بدنصیب ہیں جو آج اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے لٹائی ہوئی نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عید کی نماز ادا کرنے میں بھی کئی خوبیاں اور مصلحتیں موجود ہیں، ایک تو اس عظیم اجتماع کے روح پرور مظاہرہ کے ذریعہ دین کی عظمت و برتری اور شان و شوکت کے اظہار کا یہ مبارک موقع ملتا ہے۔ اور احکام خدا و رسول کی تعمیل میں اطراف و اکناف کے مسلمان ایک مرکز پر جمع ہوکر بطور تشکر اپنے معبود حقیقی کے آگے سرنیاز کو خم کردیتے ہیں۔
نوٹ: مگر اسوقت ہماری ریاست، ملک بلکہ تقریبا ساری دنیا ایک مہلک مرض سے پریشان حال ہے۔ اسی وجہ سے حالات بھی تبدیل ہیں، کئی ایک پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، انکے پیش نظر ہمارے علمائے کرام، شریعت کی روشنی میں جو طریقہ بتلائے ، اسکو اختیار کیا جانا چاہئے۔

نماز عیدالفطر کے شرعی مسائل آپ کے استفادہ کیلئے پیش کئے جارہے ہیں، ملاحظہ ہو:
عید کی تعریف : (۱) عید کہتے ہیں خوشی کے دن کو ‘ عیدین سے دو عیدیں یعنی عید الفطر اور عیدالاضحیٰ مراد ہیں ۔
(۲) عید الفطر اس عید کا نام ہے جو ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر غرہ شوال المکرم کو ہوتی ہے جس میں نماز کے علاوہ صدقہ فطر بھی دیا جاتا ہے ۔
نماز عید کا حکم : عید کی نماز، انہی لوگوں پر واجب ہیں جن پر جمعہ واجب ہے ۔
نماز عید الفطر کے شرائط : نماز عید کے شرائط وہی ہیں جو نماز جمعہ کے ہیں مگر اتنا فرق ہیکہ نماز جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور نماز عیدین میں سنت اور جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہئے اور عیدین کا نماز کے بعد ۔ جمعہ میں اذان و اقامت دونوں ہیں بلکہ دو اذانیں ہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت۔
عید کے دن حسب ذیل امور مسنون اور مستحب ہیں ۔ ٭ اپنی آرائش کرنا ( اصلاح بنوانا ‘ ناخن کتروانا ) ۔ ٭ غسل کرنا۔٭ مسواک کرنا ۔ ٭ عمدہ سے عمدہ لباس جو موجود ہو پہننا ۔ ٭ خوشبو لگانا ۔ ٭ عید کے دن فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں پڑھنا ۔ ٭ عید الفطر میں نمازعید سے پہلے صدقہ فطر دے دینا ۔ ٭ عید الفطر میں پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھا کر نماز کو جانا ( اگر کھجور ہوں تو طاق عدد میں کھائے ) راستہ میں تکبیر ( اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ) پڑھتے ہوئے جانا۔ ٭ عید الفطر میں تکبیر آہستہ پڑھنا ۔ نیز خیرات کی زیادتی ‘ خوشی کا اظہار اورمبارکباد دینا مستحب ہے ۔
نماز عید الفطر کے رکعات و تکبیرات: (۱) عید کی نماز کی دو رکعتیں ہیں (۲) عیدین کی نمازوں میں عام نمازوں کی تکبیروں کے علاوہ، ہر رکعت میں تین تین تکبیرات، اس طرح ہر نماز میں چھ چھ تکبیرات عیدین واجب ہیں ۔ (۳) نماز عید کی دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر بھی واجب ہے ۔
نمازعید الفطرکاطریقہ : نماز عیدین کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نماز عید کی نیت کرے ( نَوَیْتُ اَنْ اُصَلِّیَ رَکْعَتَیْ صَلٰوۃِ عِیْدِ الْفِطْرِ مَعَ سِتِّ تَکْبِیْرَاتٍ لِلّٰہِ تَعَالٰی ) ’’دو رکعت نماز عید الفطر ادا کرتا ہوں چھ تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے واسطے‘‘ امام امامت کی نیت کرے اور مقتدی اقتداء کی نیت کرے پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیںاور ثناء پڑھیں پھر (امام و مقتدی ہر دو) اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں ۔ ہاتھ چھوڑ کر اتنی دیر توقف کریں کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں ۔ پھر دوسری مرتبہ اسی طرح اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور چھوڑ دیں اور اسی قدر توقف کریں ‘ پھر تیسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ( اس دفعہ نہ چھوڑیں بلکہ ) باندھ لیں ۔ پھر امام (آہستہ) اعوذ باﷲ اور بسم اﷲ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ جہر کے ساتھ پڑھے اور قاعدہ کے موافق رکوع و سجود وغیرہ کر کے دوسری رکعت شروع کرے ۔ جب دوسری رکعت میں قراء ت (سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ ) ختم کرچکے تو امام و مقتدی ہر دو پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں اور تین تسبیح کے موافق توقف کریں۔ اسی طرح دوسری اور تیسری تکبیر کہتے اور کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑتے جائیں ( یعنی تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھیں چھوڑے رہیں ) پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور حسب قاعدہ نماز پوری کرلیں ۔ ختم نماز کے بعدامام منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ پڑھے اور تمام لوگ خاموش بیٹھے خطبہ سنیں ۔ عیدمیں بھی دو خطبے ہیں اور دونوں کے درمیان بیٹھنا مسنون ہے۔
( اقتباس: نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ پنجم )
اﷲتعالیٰ ہم سب کے حق میں عید الفطر کو عید سعید بنادے اور وعید سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com