غداری قانون پر روک

   

سودا نہ کر کسی سے کبھی اپنی آن کا
آنے دے وقت آئے اگر امتحان کا
ملک کی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے غداری قانون کے مخصوص دفعہ کے استعمال کو روک دیا ہے اور مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس دفعہ کے تحت مقدمات درج کرنے سے گریز کرے ۔ غداری قانون کو ملک بھر میں سیاسی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دفعہ 124-A کے تحت تمام کارروائیوں کو ملتوی کیا جاتا ہے اور حکومت کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس قانون کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گیا ۔ حکومت نے پہلے تو سپریم کورٹ میں اس قانون کا مکمل دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کردیا جانا چاہئے تاہم بعد میں عدالت میں ایک اور حلفنامہ داخل کرتے ہوئے حکومت نے اس دفعہ کا جائزہ لینے کے فیصلے سے واقف کروایا تھا ۔ عدالت نے سبھی امور کو ذہن میںرکھتے ہوئے فیصلہ سنادیا اور اس قانون پر روک لگا دی ہے ۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اس دفعہ کے تحت مقدمات درج نہ کئے جائیں۔ حالانکہ یہ عدالت کا عبوری حکم ہے لیکن اس کے ذریعہ کئی متاثرین کو راحت مل سکتی ہے اور آئندہ اس طرح کے مقدمات کے اندراج کو روکا جاسکتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں غداری کے خلاف سخت ترین قانون ہونا چاہئے اور ملک سے غداری کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا لیکن اس قانون کو اگر سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک پہلو کہا جاسکتا ہے ۔ ملک میں کئی مثالیں موجود ہیں جب غداری قانون کا بیجا استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور عوام کے حق میں اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے اس کی مذمت بھی کی گئی تھی اور حکومت کو اس کا جائزہ لینے کی ہدایت بھی دی گئی تھی لیکن حکومتیں اپنے عزائم کی تکمیل میں لگی ہوئی تھیں اور اس قانون کا مسلسل بیجا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ عدالت کے تازہ احکام کے بعد یقین ہے کہ اس بیجا استعمال کا جو سلسلہ چل رہا تھا اسے روکا جائے گا ۔
محض حکومت سے اختلاف کی بنیاد پر معمولی معمولی باتوں پر کئی افراد کو غداری مقدمات درج کرتے ہوئے جیل بھیجنے کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ بعض افراد کو تو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور عدالتوں میںضمانتیں تک منظور ہونے نہیں دی جا رہی ہیں ۔ ان افراد کو کئی کئی مہینے نہیں بلکہ تقریبا دو سال تک جیل میں رکھا گیا ہے ۔ ان کے خلاف بھی غداری کے مقدمات درج کرتے ہوئے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہر ایک کو حکومت سے اختلاف یا اتفاق کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔ تاہم موجودہ حکومتیں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کو قطعی تیار نہیں ہیں جبکہ اختلاف رائے کا احترام کرنا ہی جمہوریت کی بنیادوں میںشمار کیا جاتا ہے ۔ آج حکومتیں جمہوری اور دستوری اصولوں کے ساتھ کام کرنے کی بجائے اکثریتی غلبہ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ اکثریتی غلبہ کو ہی اپنے کام کاج پر حاوی کردیا گیا ہے اور ہر مسئلہ کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مخالفانہ آوازوںکو دبانے کیلئے بھی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کہیں دھمکایا جا رہا ہے تو کہیںخریدا جا رہا ہے اور جہاں کہیں یہ دونوں طریقے ناکام ہوجائیں وہاں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں اور قانون کی گنجائش کا بیجا استعمال کرتے ہوئے غداری مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور لوگوں کو جیل بھیجا جا رہا ہے ۔ یہ بالکل نئی روایت ہے جو بتدریج مستحکم ہوتی جا رہی تھی اور حکومتیں اقتدار کے نشہ میں دھت تھیں۔
سپریم کورٹ کی جو رولنگ اورعبوری آئے ہیں ان سے راحت ملنے کی امید ہے ۔ اب عدالت کی ہدایات کے بعد کم از کم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کو مخالفانہ آواز وں کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنے کی اور تحمل سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جمہوری اور دستوری گنجائشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اختلاف رائے کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے ۔ اپوزیشن اور مخالفین کو اپنا دشمن سمجھنے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا ۔ عدالتی احکام کے بعد حکومت کو ان تمام مقدمات کا بھی از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو اس دفعہ کے تحت درج کئے گئے تھے اور متاثرین سے انصاف کیا جانا چاہئے ۔