فرقہ پرستوں کے سامنے سیکولر رائے دہندوں کی توہین

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سی اے اے / این آر سی کے خلاف طلباء کے احتجاجی مظاہروں سے ہندوستان کی سیاست اور معاشرہ میں ایک مثبت خوش آئند پیشرفت ہورہی ہے ۔ ظلم بڑھتے ہیں تو آواز نکلنا یقینی ہوتاہے ۔ نفرت کی سیاست کسی بھی قوم اور ملک کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوتی ہے ۔ تاریخ اس حقیقت کو بار بار ثابت کرچکی ہے ۔ ہندوستان میں این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کو نافذالعمل کرنے کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ۔ کئی ریاستوں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں یہ احتجاج شدید نوعیت کا دیکھا گیا ۔ حکمرانی کی سطح پر سی اے اے کو مسترد کرنے والی ریاستوں میں صرف مغربی بنگال ، کیرالا اور پنجاب کا ہی نام سامنے آرہا تھا ۔ لیکن اب تلنگانہ نے بھی سی اے اے اور این آر سی پر عمل آوری سے انکار کردیا ۔ ریاستی وزیر داخلہ محمد محمود علی نے اس قانون کو ریاست تلنگانہ میں روبہ عمل لانے سے انکار کردیا ۔ دیر آئید درست آئید کی طرح محمود علی نے اپنی حکومت کے موقف کو واضح کیا لیکن یہی بیان چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی جانب سے دیا جاتا تو ریاستی عوام کا تجسس باقی نہیں رہتا ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اول سے ہی این آر سی ، سی اے اے پر منہ کھولنے سے گریز کیا ہے ۔ ان کی معنی خیز خاموشی پر کئی سوال اٹھ چکے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ انہیں اپنا موقف صاف طور پر ظاہر کردینا چاہئے کیوں کہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا قیام سیکولر بنیاد پر ہوا ہے اور کے سی آر نے عوام سے ووٹ بھی اپنے سیکولر کردار کو نمایاں بناکر حاصل کیا ہے ۔ ایک سیکولر ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش ہورہی ہے تو اس سے غیر ہندو اقوام یا افراد کا ہندوستان میں رہنا مشکل ہوتا جائے گا ۔ اس کا منطقی انجام وہی ہوگا جو تنگ نظر اور متعصب گروہوں کی بالادستی کے باعث دیگر ممالک کا تاریخ میں ہوا ہے ۔ امریکہ بھی اس وقت اسی راستے پر چل رہا ہے جس راستے پر نریندر مودی چل رہے ہیں ۔ اسی لیے دونوں قائدین ٹرمپ اور مودی ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا کر سیاست کررہے ہیں ۔ جس امریکہ نے جارج بش کے دور میں مودی کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی وہی امریکہ ٹرمپ کے دور میں مودی کو نہ صرف گلے لگایا ہے بلکہ مودی کی زبان سے یہ کہلاوایا ہے کہ امریکہ میں اب کی بار ٹرمپ سرکار ۔ مودی کی حمایت حاصل ہونے کے بعد ٹرمپ نے بھی ہندوستان میں اٹھائے گئے ظالمانہ اقدامات اور فیصلوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے ۔ یہ تو ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر طبقات کا لوگوں نے اپنے شعور اور بیداری کا ثبوت دیا ہے کہ این آر سی ، سی اے اے یا این پی آر کو قبول نہیں کریں گے۔ ہندوستان کی تاریخ میں نریندر مودی حکومت کی من مانی کا یہ عارضی مرحلہ ہے ۔ سیکولر ہندوستان کو یوں ہی تباہ ہونے نہیں دیا جائے گا ۔ تلنگانہ نے بھی اب سی اے اے کے خلاف کمر کس لی ہے تو یہاں کے عوام کا سینہ فخر سے چوڑا ہونا چاہئے ۔ تلنگانہ کے عوام سارے ملک کی دیگر ریاستوں کے عوام کے لیے مثال بن جائیں گے ۔ بھینسہ کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بھی عوام نے چند شرپسندوں کی سازشوں کو ناکام بنادیا ۔ یہ شرپسند عناصر چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ورغلاکر انہیں فساد کے لیے اکسائیں لیکن مسلمانوں نے اپنا نقصان برداشت کر کے صبر و تحمل سے کام لیا جس کے بعد بھینسہ میں فوری طور پر امن بحال کرنے میں مدد ملی اور فرقہ پرستوں کو شکست ہوگئی ۔ فرقہ پرستوں نے بھینسہ کے ذریعہ ساری ریاست میں فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی موجودگی میں فسادیوں کو سانس لینے کا زیادہ موقع نہیں ملے گا ۔ کے سی آر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تلنگانہ کو پرامن ریاست بنائیں گے ۔ اگرچیکہ انہوں نے سی اے اے اوراین سی آر پر محتاط رہنے کا مظاہرہ کیا مگر سی اے اے کے خلاف ٹی آر ایس نے ووٹ دیا تھا ۔ اس قانون کو امتیازی اور غیر دستوری بھی قرار دیا تھا لیکن اب ان کے تائب وزیر داخلہ محمد محمود علی نے این سی آر ، سی اے اے پر عمل آوری سے صاف انکار کردیا ۔ ابتداء میں ٹی آر ایس نے اس مسئلہ پر بی جے پی سے راست متصادم ہونے سے گریز کیا کیوں کہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جو پارٹی یا لیڈر نریندر مودی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرے گا اسے سیاسی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا لیکن ملک بھر میں جب سی اے اے کے خلاف آوازوں میں اضافہ ہوا تو کے سی آر کو بھی اپنے وزیرداخلہ کی زبانی بیان جاری کروانا پڑا ۔ کے سی آر کے فرزند کے ٹی آر نے بھی دسمبر میں کہا تھا کہ ان کی حکومت این پی آر اور این آرسی پر بہت جلد فیصلہ لے گی ۔ بہر حال تاخیر سے ہی سہی کے سی آر حکومت نے سی اے اے کے خلاف اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کرنے کی ضرورت ہے کہ کیرالا کی طرح تلنگانہ بھی سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوگی کیوں کہ سی اے اے ایک خطرناک قانون ہے اور اس کی وجہ سے دستور ہند کو تباہ کردیا جاسکتا ہے ۔ جمہوری ملک میں سانس لینے والے عوام اپنے اس جمہوری حق سے کامل طور پر استفادہ کریں گے اور ہندوستان کو ایک جمہوری ملک ہونے کا فخر ہوگا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مرکز کی نریندر مودی حکومت آنے والے دنوں میں 26 جنوری کے دن یوم جمہوریہ منائے گی یا یوم سیاہ ، کیوں کہ اس نے عوام کے جمہوری حقوق چھین لینے کی خاطر ہی یہ سخت قوانین لائی ہے ۔ اگر مودی حکومت ان قوانین کو روبہ عمل لانے کی ضد پر ہے تو پھر اسے یوم جمہوریہ پریڈ کی سلامی نہیں لینی چاہئے کیوں کہ یوم جمہوریہ کا مطلب عوام کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہونا ہوتا ہے ۔ عوام ایک مضبوط جمہوری فضامیں سانس لے رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن مودی حکومت نے جب عوام کے جمہوری حقوق کو ہی سلب کرنے والے قانون لاگو کیے ہیں تو پھر اس حکومت کو یوم جمہوریہ کے موقع پر اخلاقی طور پر ہی پریڈ کی سلامی نہیں لینی چاہئے ۔ لیکن مودی حکومت ایک طرف جمہوریت کا جشن منانا چاہتی ہے تو دوسری طرف جمہوری عوام کو پریشان کررہی ہے ۔ مودی حکومت اخلاقی طور پر یوم جمہوریہ پریڈ کی سلامی لینے کی حقدار نہیں ہے اگر وہ جمہوریت پرایقان رکھتی ہے تو پھر عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرنے کا ارادہ ترک کرنا ہوگا ۔ تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت نے ہمت تو دکھائی ہے لیکن حکومت کا سربراہ اس مسئلہ پر معنیٰ خیز خاموشی رکھتا ہے ۔ شاید کے سی آر کو اپنا موقف واضح کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہے ۔ اس لیے وہ اب تک محتاط نظر آرہے ہیں ۔ بلدی انتخابات سے قبل پارٹی کے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے وزیر داخلہ محمود علی کے ذریعہ این آر سی پر عمل آوری نہ کرنے کا اعلان کروایا گیا ۔ لیکن کے سی آر خود یہ بیان جاری کرسکتے تھے ۔ مودی حکومت سے اس قدر خوف زدہ رہنے والے کے سی آر کو تلنگانہ کا سپوت کہنے سے تعمل ہورہا ہے ۔ حیدرآباد کے ملین مارچ کے بعد بھی انہوں نے ریاست کے عوام کے موڈ کو نہیں سمجھا ہے تو ان کے تعلق سے یہ کہا جائے گا کہ اوپن مائنڈ کے چکر میں وہ بے شرم اور بے حیا ہوتے جارہے ہیں ۔ سیکولر ووٹ لے کر فرقہ پرستوں سے ڈرتے ہو کیا یہ سیکولر رائے دہندوں کی توہین نہیں ہے ۔۔