فلسطین میں نسل کشی

   

اُسی کو منزل مقصود بڑھ کے چومے گی
قدم جو پایۂ عزم و ثبات ہے باقی
فلسطین میں نسل کشی
صیہونی اسرائیل کے خلاف حماس کے حملوں کے بعد سے سارے فلسطین میں ایک طرح سے نسل کشی شروع کردی گئی ہے ۔ غزہ پٹی میں حماس کے خلاف کارروائیوںکے نام پر نہتے اور بے بس فلسطینیوںکی نسل کشی کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ انتہائی انسانیت سوز واقعات پیش آ رہے ہیں۔د واخانوںاور عام شہریوں کے گھروں تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ معصوم اور دودھ پیتے بچوں کو تک موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے ۔ خواتین اور ضعیف العمر افراد کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حیرت اور انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا اسرائیل کے ان ظالمانہ اور سفاکانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ اس کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسرائیل کے مظالم اور جنگی جرائم کو واجبی قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ دنیا بھر میںانسانی حقوق کی دہائی دیتے ہوئے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوںکو موت کے گھاٹ اتارنے کے ذمہ دار ممالک بھی اسرائیل کے پٹھو بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے فلسطین میں جنگ بندی کیلئے بھی آواز بلند کرنے کے موقف میںنہیں رہ گئے ہیں۔ رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے ۔ موت کا ننگا ناچ کیا جا رہا ہے ۔ کئی کئی شہروں اور رہائشی علاقوں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ نہایت تباہ کن کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اپنی ساکھ اور شناخت کھوتا نظر آرہا ہے ۔ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیو گٹیرس نے اس مسئلہ پر قدرے انسانی پہلوکو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ بات کہی تو انہیں بھی تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور دوسری عالمی طاقتیں اسرائیل کی غلام بن گئی ہیں۔ حماس کی کارروائیوں میں سرائیل کا جو جانی نقصان ہوا تھا اس پر تو واویلا مچایا گیا لیکن نہتے اور بے بس و بے قصور فلسطینی بچوں ‘ خواتین اور ضعیف العمر افراد کی اموات پر ان کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں۔ کان کچھ سن نہیں رہے ہیں اور انہیں ان اموات کی کوئی فکر اور پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ لوگ انتہاء درجہ کی ڈوغلی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں اور دنیا کو اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کا جواز پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی انتہاء درجہ کی سفاکیت اور بزدلی ہے ۔
اسرائیل نے انتہائی سفاکیت کے ساتھ غزہ پٹی کو پہونچنے والی انسانی امداد تک کو بھی روک دیا ہے ۔ وہاں ادویات اور غذائی اجناس تک پہونچنے نہیں دی جا رہی ہیں۔ چھوٹے شیر خوار بچے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے دم توڑ رہے ہیں۔ انہیں میزائیل اور فائرنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔ ان کی زمین پر ہی ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود ساری دنیا خاموش ہے اور اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے ۔ علاقہ کے جو مسلم اور عرب ممالک ہیں ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھی سانپ سونگھ گیا ہے ۔ وہ بھی اپنے دیرینہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین سے پہلوتہی کرنے لگے ہیں۔ فلسطینی کاز کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کو اپنے لئے تمغہ سمجھ رہے ہیں۔ فلسطین کے نہتے اور معصوم عوام کے قتل عام اور ان کی نسل کشی پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ چند ٹرکس میں ادویات اور غذائی اجناس روانہ کرتے ہوئے خود کو بری الذمہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیںرہ گیا ہے کہ غاصب اسرائیل کے عزائم خود ان کے اپنے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ فلسطینی عوام کی مزاحمت جب ختم ہوجائے گی تو پھر دوسرے ممالک کا نمبر بھی آسکتا ہے ۔ ایسے میں ان ممالک کو بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے ۔ بے گناہوں کا جو خون ناحق بہایا جا رہا ہے اس کا سلسلہ روکا جائے اور وہاں امن قائم کیا جائے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح سے اسرائیلی عوام کے جان و مال کے نقصان پر دنیا نے فکر و تشویش دکھائی تھی اسی طرح کی فکر و تشویش فلسطینیوں کیلئے بھی دکھائی جائے ۔ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر بے سر وسامان کردئے گئے ہیں۔ زندگی ان کیلئے مشکل اور موت آسان کردی گئی ہے ۔ انہیں بنیادی ضروریات سے تک محروم رکھا جا رہا ہے ۔ انصاف پسند دنیا کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ عوام ضرور اپنی حکومتوں کو احساس دلا رہے ہیں تاہم حکمرانوں کو خواب غفلت سے جاگنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل نے مظالم کا جو سلسلہ دراز شروع کیا ہوا ہے اس کو روکا جاسکے اور فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
انتخابات میں ضابطہ اخلاق پر عمل ضروری
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا عمل چل رہا ہے ۔ انتخابی مہم عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین زیادہ سرگرم ہوتے ہوئے عوام کو اپنے حق میں راغب کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ایسے میں بے شمار واقعات ایسے پیش آ رہے ہیں جن سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ یہ خلاف ورزیاں سنگین بھی ہیں اور تشویش کی بات بھی ہیںکیونکہ ان کی وجہ سے حقیقی عوامی نمائندگی کے امکانات متاثر ہونے لگے ہیں۔ پیسے اور طاقت کے بل پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوم کو حقیقی اور بنیادی مسائل سے بھٹکاتے ہوئے ان کا استحصال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کچھ مقامات پر تو عوام کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مذہبی منافرت پھیلانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے منصوبوں اور پروگرامس اور اب تک کی کارکردگی کی اساس پر عوام سے رجوع ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کو زیادہ سرگرمی اور چوکسی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی نمائندگی کے جس بنیادی جذبہ کے تحت انتخابات ہوتے ہیں ان کو پورا کیا جاسکے ۔ عوام کا استحصال کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے اور جو نمائندے منتخب کئے جائیں وہ حقیقی عوامی نمائندوں کا فریضہ ادا کرسکیں۔