قاری ڈاکٹر نصیرمنشاوی ’’حیات منشاویؒ‘‘ کے حوالے سے

   

نذیر نادر

شہر حیدرآباد (بالخصوص نئے شہر) میں فن قرأت کو مقبول بنانے میں زُبدۃ القراء حضرت قاری محمد عبدالعلیمؒ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، قاری صاحب نے احکام تجوید اور فن قرأت کی تحصیل کیلئے ابتدائً اپنے والد معظم حضرت قاری شیخ محمود نقشبندیؒ سے رجوع کیا۔ بعدازاں مولوی ناظر حسینؒ اور قاری کرنل مرزا بسم اللہ بیگ ؒ سے فن قرأت (سبعہ و عشرہ) اور عربی زبان میں درک حاصل کیا۔ 1950ء میں بمقام جامع مسجد ٹین پوش لال ٹیکری (نامپلی) قاری عبدالعلیمؒ نے درس قرآت کا آغاز فرمایا۔ اللہ نے آپؒ کو بڑی مقبولیت سے نوازا۔ آپؒ 1951ء کے اوآخر میں محلہ مراد نگر نزد مہدی پٹنم منتقل ہوئے اور وہاں باضابطہ درس قرأت کا سلسلہ شروع کیا (جو تاحیات یعنی کوئی 55 برس قائم رہا اور آج بھی آپؒ کے سعادت مند تلامذہ کی وساطت سے آپؒ کا فیضان جاری ہے) مختلف مکاتب فکر کے اَن گنت اصحاب (بلاقید عمر و مرتبہ) آپؒ کے درس قرأت سے مستفید ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک دن آیا اور قاری عبدالعلیمؒ اپنے لاتعداد شاگردوں کو غم فراق دے گئے۔ آپؒ کے پسندیدہ قراء میں قاری شیخ خلیل العصری اور قاری شیخ محمد صدیق منشاوی تھے۔ ممبئی کی مشہور ریکارڈنگ کمپنی (HMV) نے آپؒ کی خوشگوار آواز مکمل قرآن مجید (مجود) ریکارڈ کیا۔ آپؒ کے نام نامی تلامذہ میں مولف کتاب قاری ڈاکٹر محمد نصیرالدین منشاوی بھی ہیں۔ قاری نصیر نے پہلے تو اپنے والدین بزرگوار سے اکتساب فیض کیا، پھر استاذالقرأ قاری محمد علی خاں کے حلقہ قرأت سے وابستہ ہوئے۔ بعدازاں حضرت قاری محمد عبدالعلیمؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور اپنے دامن دل کو جواہرات قرأت سے بھر لیا۔ وہیں اُردو (نثر و نظم) کی رہبری کیلئے زبدۃالقرأء کے برادر صغیر اور نامور استاذ سخن حضرت رحمن جامی کا دست شفقت تھام لیا اور میدان قرأت میں شہسواری کے ساتھ ساتھ کوئی چار عدد کتابیں (1) حج کے مسافر (2) مصر میری نگاہوں سے (3) حیات منشاوی (4) سمندر کی گود میں رقم کردیں۔ جامع مسجد گن فاؤنڈری کے خطیب قاری نصیر یوں تو بچپن ہی سے حسن قرأت پر مائل رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ذوق قرأت بھی پروان چڑھتا گیا۔ وہ قاری شیخ عبدالباسط کی قرأت کو بغور سنتے تھے اور نقل کی پوری کوشش کرتے تھے مگر نہ جانے کیوں؟ انہیں کسی اور کا انتظار تھا! ایسا لگتا تھا کہ ان کے روحانی وجود کا ایک حصہ گم ہوگیا ہے اور وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ 1987ء کی بات ہے۔ انہوں نے اپنے استاذ قاری محمد علی خاں کی زبانی پہلی مرتبہ قاری شیخ محمد صدیق منشاوی ؒ کا نام سنا اور ساتھ ہی ان کے چند اوصاف قرأت بھی سماعت سے گزرے۔ یوں لگا کہ اب منزل بہت قریب ہے۔ 1989ء میں قاری نصیر کے ایک رفیق دیرینہ نے جب انہیں قاری شیخ محمد صدیق منشاویؒ کی (پرسوز آواز میں ریکارڈ کی ہوئی قرأت کی) کیسیٹ حوالے کی تو قاری نصیر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، وہ فوراً لپکے اور ریکارڈنگ لگائی اور اس قدر محو ہوگئے کہ اِردگرد سے بالکل بے خبر ہوگئے حتی کہ گیسیٹ کی گردش مکمل ہوگئی، اب قاری نصیر کو جب بھی وقت ملتا پہلی فرصت میں وہ اس کیسٹ کو سننے اور مستغرق ہوجاتے۔ محبت بڑھتے بڑھتے درجہ عشق تک پہنچنے لگی اور قاری نصیر رفتہ رفتہ اپنے محبوب قاری (شیخ منشاوی) کے قرائتی سانچے میں دُھلنے چلے گئے، اس وقت انہیں کافی اطمینان ہوا بلکہ منشاوی کی ’’سند معنوی‘‘ مل گئی جب انہوں نے اپنے استاذ قاری محمد عبدالعلیمؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نصیر کا منشاوی گلا‘‘ ہے۔ دریں اثناء وہ روزانہ کوئی نصف گھنٹہ نشر گاہ سعودیہ سے قاری شیخ منشاویؒ کی سر فشاں آواز میں تلاوت خیرالکلام سنتے رہے، مطالب کے ساتھ ساتھ تجوید و قرأت کے رموز و اوقاف سے بھی بہرہ مند ہوتے رہے، کوئی ڈھائی سال کے عرصے میں قرآن مجید مکمل ہوا، فریفتگی بڑھتی ہی گئی بالآخر قاری نصیر نے دیارِ محبوب میں حاضری کا فیصلہ کرلیا جبکہ یقین ہے کہ وصال محبوب ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ محبوب (قاری شیخ منشاوی) دارالبقاء پہنچ چکے ہیں مگر دل نے کہا کہ اس کے ورثاء تو ہوں گے؟ اس کا کوئی گھر تو ہوگا؟ اُن کی مسجد تو ہوگی؟ ان کی کوئی یادگار تو ہوگی؟ ان کے مداح تو ہوں گے؟ ان کا مزار تو ہوگا؟ بہرطور جانا ہے! 2011ء میں قاری نصیر نے رخت سفر باندھا اور مصر روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر باحجاب محبوب (شیخ منشاوی) سے جتنا ممکن تھا۔ آسودہ ہوگئے یعنی گلستان محبوب کی سیر کی۔ ورثاء سے ملاقات کی۔ مزار محبوب پر حاضری دی۔ ’’مدرسۃ المنشاویۃ کی زیارت کی۔

مسجد منشاوی میں تلاوت کی۔ باقیات منشاوی کا بصد شوق مشاہدہ کیا، بالخصوص قاری شیخ منشاوی کے برادر صغیر قاری شیخ محمود صدیق منشاوی سے شرف نیاز حاصل کیا اور اپنی پاٹ دار آواز میں قرأت پیش کی، جس سے قاری شیخ محمود منشاوی بہت مسرور ہوئے اور علی الفور قاری نصیر کو ’’سند منشاوی‘‘ سے سرفراز فرمایا، اس طرح قاری نصیر ’’ہندوستان‘‘ کے سب سے پہلے منشاوی لقب‘‘ پانے والی شخصیت بن گئے۔ قاری نصیر کا کہنا ہے کہ آج ہندوستان بھر میں سرزمین حیدرآباد (دکن) کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں ’’لحن منشاوی‘‘ خاص طور پر سنا جاتا ہے اور بجا طور پر اس کا سہرا مشہور زمانہ استاذ قاری محمد علی خاں (اور ان کے شاگردوں) کے سَر جاتا ہے، بعض محبین کہتے ہیں کہ قاری نصیر کی آواز پر قاری شیخ منشاوی کا گمان ہوتا ہے ۔ ان کی آواز درد انگیز تھی،ایک سرسری جائزہ سے پتہ چلا کہ اُن کی آواز بھی پرسوز ہے، انہوں نے کئی ممالک کا دورہ کیا تھا اور یہ بھی کئی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، البتہ وہ نسلاً وہ اصلاً منشاوی تھے، یہ خطابی و لقبی منشاوی ہیں۔ مستغنی نہیں ہیں، وہ نہایت باوقار تھے، مگر ان میں سنجیدگی کا فیصد کچھ کم ہے۔ المختصر قاری شیخ منشاویؒ کے اَن گنت مداحوں میں قاری نصیر کا نام بھی نمایاں ہے۔ ’’حیاتِ منشاوی‘‘ میں قاری نصیر نے قاری شیخ منشاوی کی حیات سے متعلق جامع معلومات فراہم کیں، بالخصوص احمد عمارالشطور کی تالیف ’’الاسرۃ القرانیہ‘‘ کا اُردو ترجمہ بھی شامل کیا جو دراصل شیخ منشاوی کی حیات ہر مرقوم ہے۔ کتاب کا آغاز فرمان خدا ’’ ورتل القرآن ترتیلا اور ارشاد نبویؐ ﷺ زینوالقرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزیدالقرآن حسنا‘‘ سے کیا ہے۔ حیات منشاوی میں کوئی پانچ تقاریظ ہیں جن میں چار تقاریظ ایسی ہیں جنہیں مؤلف کے شاگردوں نے رقم کی ہیں (بہتر ہوتا کسی اہل فن سے لکھواتے) شیخ محمد غزالی مصری کا عربی مضمون (جو حیات منشاوی اور فضائل قرآن مجید سے معمور ہے) کو مقدمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ قاری نصیر قرأت کے طرق ثلاثہ (ترتیل، تدویر اور حدر) میں نہ صرف مہارت رکھتے ہیں بلکہ ان کا خوب تر مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ’’حیات منشاوی‘‘ موصوف کی تیسری کتاب ہے جس میں اول الذکر شیخ منشاوی کے جد امجد قاری سید تائب منشاوی ہیں جنہوں نے ’’مدرسۃ المنشاویہ‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی، جن کے دو بیٹے تھے۔ (1) قاری شیخ صدیق منشاوی اور (2) قاری شیخ احمد منشاوی، ان میں صدیق منشاوی کے تین بیٹے تھے۔ (1) شیخ محمد منشاوی (2) شیخ احمد منشاوی (3) شیخ محمود منشاوی۔ عرصہ دراز پہلے شیخ محمد صدیق منشاوی اور شیخ احمد صدیق منشاوی رحلت فرما گئے، البتہ شیخ محمود منشاوی ابھی بقید حیات ہیں۔ قارئین! دراصل یہ کتاب ’’حیات ِ منشاوی‘‘ قاری شیخ محمد صدیق منشاوی سے متعلق ہے، اس لئے اب انہیں کے بارے میں ’’شیخ منشاوی‘‘ کے اسم مختصر سے بات کی جائے گی۔ شیخ منشاوی 1920ء میں شہر منشاوہ (ضلع سوہاج، صوبۂ صعید) مصر میں پیدا ہوئے، سب سے پہلے اپنے والد کریم قاری شیخ صدیق منشاوی (جنہیں شاہ عبدالعزیز آل سعود نے ’’امین القرآن کا لقب دیا تھا) کے چشمۂ علم سے سیراب ہوئے، بعدۂ صرف 8 سال کی عمر میں علامہ نمکیؒ کی زیرنگرانی کلام اللہ کے حافظ ہوگئے، استاد نمکی کی ایماء پر والد کریم نے احکام تجوید و فن قرأت کی تعلیم کیلئے شیخ منشاوی کو (اس وقت کے جید اساتذہ) (1) قاری شیخ محمد ابوالاعلیٰ اور (2) قاری شیخ محمد سعودی کے سپرد کیا۔ 1940ء سے شیخ منشاوی کے حسن قرأت کی شروعات ہوئی، اس دور میں احمد نداء، منصور بدر، علی محمود اور شیخ محمد رفعت مشائخین قرأت مانے جاتے تھے اور خود شیخ منشاوی کے والد کریم کا کافی شہرہ تھا، ان کے علاوہ شیخ حکیم شعشاعی، محمود علی البناء، شیخ عبدالعزیزالفرج، شیخ طوخی، شیخ الغشنی (وغیرہ) جیسی شخصیات بھی چھائی ہوئی تھیں، مگر جب شیخ منشاوی کی کھنک دار آواز گونجی تو اس نے بہت جلد اصحابِ ذوق کی سماعتوں کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ قاری شیخ مصطفی اسماعیل، قاری شیخ خلیل العصری، قاری شیخ عبدالباسط، قاری شیخ مصطفی راغب غلوش، قاری شیخ کامل یوسف البہیتی وغیرہ آپ کے معاصرین میں تھے۔ سحر آفرین آواز ’’انوکھا انداز‘‘ آیاتِ کریمہ میں موجود احکام، واقعات اور مثال کا استحضار، اسلوب کا ادراک، جلال و جمال کبریا کے دھیان کے ساتھ ساتھ حب الہی سے معمور اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منور دل نے شیخ منشاوی کی ہستی کو ایسا عروج بخشا کہ رہتی دنیا تک ہر باشعور قاری و مقری آپ کی تقدیر پر رشک کرتا رہے گا۔ (کہا جاتا ہے کہ آپ کے منجھلے بھائی شیخ احمد منشاوی نوعمری ہی میں وفات پاگئے۔ اس صدمے سے آپ اس قدر دو چار ہوئے کہ تادم زیست یہ غم آپ کی درد بھری آواز کا محرک رہا) 1952ء سے شیخ منشاوی عمومی و خصوصی مجالس قرأت میں بحیثیت قاری بطور خاص مدعو کئے جانے لگے، جس مجلس میں بھی آپ تلاوت فرماتے تو الھم زدہ، اللہ اکبر، ماشاء اللہ، سبحان اللہ ، جیسے دعائیہ جملے، خوشگوار حیرت میں ڈوبے سامعین کی زبان سے بے ساختہ نکلتے تھے، 1953ء میں جب نشر گاہ مصر سے آپ کی مقناطیسی آواز میں قرات نشر کی گئی تو عالم اسلام میں فن قرأت کی ایک متبرک تاریخ مرتب ہونے لگی۔ ریکارڈنگ کے زمانے میں آپ کی قرأت کے کوئی 200 ریکارڈ تیار کئے گئے، اس وقت کے صدر مصر جمال عبدالناصر بھی آپ کے شیدائیوں اور قدر دانوں میں تھے، وہ وقتاً فوقتاً شیخ منشاوی کو اپنی خاص محفلوں میں مدعو کرتے تھے۔ جمال عبدالناصر ہی کی توجہ خاص سے شیخ منشاوی کی متاثرکن آواز میں مکمل قرآن مجید باتجوید (2) مکمل قرآن مجید باترتیل اور (3) روایت حفص کے نہج پر مکمل ایک قرآن پر ریکارڈ کیا گیا۔ شیخ منشاوی کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، ساتھ ہی ساتھ چند حاسدین و ناقدین بھی پیدا ہوگئے مگر شیخ منشاوی عجیب زاہدانہ مزاج رکھتے تھے، نہ تعریف و توصیف سے ان کا سینہ چوڑا ہوتا تھا، نہ تنقید و تنقیص سے ان کا دل چھوٹا ہوتا تھا، شیخ منشاوی باخبر تھے مگر یہ ان کا بڑاپن تھا کہ انہوں نے حاسدین کی فہرست کسی کو نہیں دی۔ نہ جانے اللہ کی کیا مرضی تھی کہ عین مقبولیت کے زمانے میں شیخ منشاوی بیمار پڑ گئے اور 1969ء میں آپ پر وہ گھڑی آگئی جس کے صدمے سے کروڑوں دل دہل گئے، 2015ء یعنی آپ کی وفات کے 46 سال بعد آپ کے ویڈیو کلپس منظر عام پر آئے جو صرف چند ہیں اور وہ بھی مختصر دورانیہ پر مشتمل ہیں جنہیں یو ٹیوب (YouTube) پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ’’حیات ِمنشاوی‘‘کے 125 صفحات کے درمیان موقع بہ موقع شیخ منشاوی (ان کے دادا، والد، اولاد ، احباب وغیرہ) کی یادگار تصاویر ہیں۔ شاید مؤلف نے انہیں ضروری سمجھ کر جگہ دی ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں قاری نصیر نے شیخ منشاوی کے چھوٹے بھائی قاری شیخ محمود منشاوی کے بارے میں خصوصی جانکاری دی ہے۔ اصحاب ذوق کیلئے یہ بہت دلچسپ کتاب ہے جو صرف 100 روپئے (رعایتی ہدیہ) میں مولف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ٭ Ph. : 9849093167