قبلہ اول اور اسرائیلی جارحیت

   

یہ خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچادو
قبلہ اول اور اسرائیلی جارحیت
صیہونی مملکت اسرائیل کی جارحیت اپنی حدوں کو پار کرتی جا رہی ہے ۔ نہتے فلسطینیوں کو عصری ہتھیاروں اور اسلحہ سے نشانہ بناتے ہوئے بیت المقدس میں داخلہ سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی مذموم حرکت ہے ۔ گذشتہ جمعہ سے اسرائیل نے طاقت کا جو استعمال کیا ہے وہ بہیمانہ ہے اور اس کے نتیجہ میں درجنوں فلسطینی مظاہرین اور مصلی زخمی ہوئے ہیں جو بیت المقدس میں نماز ادا کرنے پہونچے تھے ۔ اسرائیلی جارحیت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اکثر و بیشتر اسرائیل کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ فلسطینی عوام نہتے ہونے کے باوجود انتہائی جذبہ کے ساتھ بیت المقدس کی حفاظت کیلئے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔جو مناظر اور تصاویر وہاں سے دستیاب ہوئی ہیں ان سے اسرائیلی جارحیت واضح طور پر ابھر کر دنیا بھر کے سامنے آگئی ہے اس کے باوجود اسرائیل جیسی صیہونی مملکت کو اس سے روکنے کیلئے کسی نے لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ نہتے فلسطینی باشندوں نے تنہا اپنے بل پر اور اللہ کے بھروسے بیت المقدس کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا تھا اور ان کا جذبہ قابل قدر ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ساری ساری رات انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا سینہ تان کر مقابلہ کیا اور جس جذبہ کے ساتھ وہ اسرائیلی جارحیت کے آگے کھڑے رہے وہ قابل ستائش ہے ۔ اس سے ساری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں کے جذبہ کو سلام کر رہے ہیں اور فلسطینیوں کی بہتری اور بھلائی کیلئے دعائیں کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ قبلہ اول کے تقدس کی حفاظت کیلئے دست بہ دعا ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں ‘ خواتین اور لڑکیوں کے علاوہ کمسن بچوں نے بھی اسرائیلی جارحیت کا جس جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور اس نے ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں فلسطینیوں کی عزت و وقار میں اضافہ کردیا ہے ۔ ان کیلئے دل سے دعائیں نکل رہی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا بھر کے حکمران اس تعلق سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
اسرائیل کو اس کی جارحیت سے روکنا ساری دنیا کے انصاف پسند ممالک کا فرض اولین ہے ۔ نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ بے دریغ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ خواتین تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ کمسن بچوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود دنیا بھر کے تمام ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک اسرائیل کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلم اور اسلامی ممالک نے بھی اس تعلق سے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہوا ہے ۔ ماہ رمضان المبارک میں بھی فلسطینیوں کی مدد کیلئے کوئی آگے آنے کو تیار نہیں ہے ۔ مسلم ممالک اگر ایک آواز ہوکر اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں توا س سے فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کو اس خطرناک جارحیت اور مظالم سے روکا جاسکتا ہے ۔ اسرائیل پر لگام کسنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔ جو کوئی انسانی حقوق اور انصاف کا حامی ہو اس کو اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ مصلحتوں کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کرنا فلسطینی عوام پر مظالم میں اضافہ کے مترادف ہوگا اور ہر ظلم میں خاموشی اختیار کرنے والوں کا بھی رول ہوگا ۔ فلسطینیوں کی مدد کرنا اور قبلہ اول کا تحفظ کرنا مسلم ممالک کا بھی فرض اولین ہے ۔ انہیں اپنی خاموشی اور عافیت پسندی کا رویہ تبدیل کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیا کے بڑے ممالک اور خاص طور پر امریکہ کو اس تعلق سے خاموشی ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کو اس کی جارحانہ کارروائی سے روکنا چاہئے ۔ دنیا کے دوسرے طاقتور ممالک کو بھی اپنی انصاف پسندی کے تقاضوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں کی مدد کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمان آج اسرائیل کے خلاف برہم ہیں اور ان کا غم و غصہ حق بجانب ہے ۔ دنیا کے تمام ممالک کو اس بات کو سمجھنے اور اسرائیل پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔