قرآن

   

اور پیدا کیا جان کو آگ کے خالص شعلے سے ، پس (اے انس و جاں) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ (سورۂ رحمٰن ۱۵۔۱۶) 
جآن جنوں کے پہلے باپ کا نام ہے۔ جس طرح آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی اسی طرح جان کی تخلیق خالص آگ سے ہوئی۔ پھر جنوں کی نسل کو چلانے کےلئےازدواج کا وہی نظام یہاں بھی جاری ہے جو انسانوں میں ہے۔ مارج کہتے ہیں خالص آگ کو جس میں دھوئیں کا نام ونشان نہ ہو۔ قرآن کریم کی ان دو آیتوں میں صراحۃً بتادیا کہ انسان اور جن دو مختلف نوع ہیں۔ ایک کا اصل مٹی ہے اور دوسرے کا اصل آل ہے۔ اس سے کئی اور مسائل بھی معلوم ہوجاتے ہیں کہ جس طرح انسان باشعور اور با اختیار ہونے کے باعث احکام شرعی کی بجا آوری کا مکلّف ہے اسی طرح جنات بھی باشعور اور بااختیار ہیں اور احکام شرعیہ کی بجا آوری ان پر بھی ضروری ہے۔نیز حضور نبی کریم (ﷺ) جس طرح بنی نوع انسان کی طرف نبی بن کر تشریف لائے ہیں اسی طرح جنات کے لیے بھی نبی ہیں۔ نیز فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِمیں ضمیر تثنیہ کا مرجع جن وانس دونوں ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات مادہ سے مجرد نہیں۔ بلکہ انسان کے خاکی پیکر کی طرح ان کا آتشی پیکر ہے۔ اے انسان! تیری اصل مٹی ہے۔ دیکھ تیرے رب نے اس مشت خاک کو کتنا حسین پیکر بخشا ہے اور اس میں بےتحاشا قوتیں پیدا کردی ہیں۔ آنکھ پیدا کردی ہیں۔ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، زبان کا لوتھڑا بولتا ہے، دل تمام جسم میں خون پہنچاتا ہے۔ تیرے کاسۂ سر میں کیسے خود کار آلات نصب کردیے ہیں۔ تیرے شکم میں نظام ہضم کو کیسی مستحکم بنیادوں پر قائم کردیا ہے۔ یہی حال جنّات کا ہے۔ ان کو بھی خصوصی حواس اور بےپایاں قوتیں بخشی گئی ہیں ۔ اے جن وانس! تم بتاؤ کہ تم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت پر ناشکری کروگے۔