قرآن

   

مانگ رہے ہیں اس سے (اپنی حاجتیں) سب آسمان والے اور زمین والے ہر روز وہ ایک نئی شان سے تجلی فرماتا ہے ۔ پس ( اے جن و انس ! ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ (سورۂ رحمن ۲۹۔۳۰)
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس آیت کا مفہوم پوچھا وہ نہ بتاسکا اور کل تک کی مہلت طلب کی اور بڑا افسردہ اور پژمردہ گھر آیا ۔ اس کا ایک سیاہ فام غلام تھا ۔ اس نے پوچھا میرے آقا آپ پریشان کیوں ہیں ؟ اس نے پریشانی کی وجہ بتائی غلام نے کہا آپ مجھے سلطان کے پاس لے چلیں میں اسے اس آیت کا مفہوم بتاؤں گا۔ وہ غلام جب سلطان کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ گویا ہوا : یعنی اے بادشاہ ! اﷲ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ۔ وہ بیمار کو صحتیاب اور صحتیاب کو بیمار کرتا ہے ۔ آرام و عافیت والے کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اورجومصیبت میں ہے اس کو آرام وسکون عطا فرماتا ہے۔ وہ ذلیل کو عزت بخشتا ہے اور عزت والے کو ذلیل کرتا ہے۔ وہ غنی کو فقیر اور فقیر کو غنی بناتا ہے۔ بادشاہ یہ سن کر اسے قلمدانِ وزارت سونپ دیا۔ غلام نے کہا، میرے آقا یہ بھی میرے اللہ تعالی کی ایک شان ہے۔ عبداللہ ابن طاہر نے حسین ابن فضل کو بلایا اور کہا کہ جب یہ بات صحیح ہے کہ قیامت تک جو کچھ وقوع پذیر ہونے والا ہے وہ لکھا جاچکا ہے اور قلم اب خشک ہوچکا ہے ، یعنی اب مزید کچھ نہیں لکھا جائے تو گا تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے ’’كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِىْ شَاْنٍ‘‘ حسین نے برجستہ جواب دیا شان سے مراد ازل میں طئے شدہ فیصلوں کا اظہار اور نفاذ ہے نہ کہ نئے فیصلوں کا