قطب الاقطاب حضرت شاہ خاموش ؒ

   

مولاناحافظ سید مدثر حسینی
گزشتہ سے پیوستہ: خانقاہ مکہ مسجد میں حضرت شاہ خاموشؒ کے محافل ذکر ومجالس قوالی ہواکرتیں خانقاہ میں مقیم فقراء کی تعداد تین سو سے زائد ہوا کرتی جب حلقہ ذکر منعقد ہوتا تو پورے شہر میں دھوم مچی رہتی ہے‘ پیربغدادی صاحبؒ ،حضرت سید محمد رحمۃ اللہ علیہ بارہا فرمایا کرتے کہ مکہ مسجد کے حلقہ ذکر کی آواز ہم روزانہ سرور نگرمیں سالہا سال سے سنتے آرہے ہیں۔ نواب ناصر الدولہ بہادر کی زندگی ہی میں ولیعہد نواب افضل الدولہ بہادر کی خانقاہ میں آپؒکی کثرت سے آمد ورفت تھی اور دونوں نواب حضرت شاہ خاموشؒ سے بڑی شدت سے عقیدت رکھتے تھے ،ان بادشاہوں کے تمام اہل محلات اور والیان پائیگاہ اور ان کے محلات بھی حضرت شاہ خاموش ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے مرید ہو چکے تھے۔ نواب افضل الدولہ بہادرؒ نے ازراہ عقیدت تین جاگیرات درسیوا اٹبلہ ،بیگم پیٹھ،رضا گوڑہ ،چدرپہ، حضرت شاہ خاموش ؒ کی خدمت میں پیش کیں لیکن حضرت قبلہ ؒ نے ان کے لینے سے بوجہ کمال فقر انکار فرمایا،چنانچہ ان تینوں جاگیرات کے اسناد حضرت قبلہ ؒ کے موسومہ آج تک دفترمال وملکی میں موجود ہیں ۔ حضرت شاہ خاموش قبلہ ؒ کے کارہائے نمایاںآپؒ کے حکم پر مختلف شہروں میں مساجد تعمیر کرواگئے جن کی تعداد ۹ ہیں ۔ حضرت شاہ خاموش قبلہ ؒ پنچ وقتہ نمازتاریخی مکہ مسجد میں ادا فرمایا کرتے۔
حضرات اولیاء وارثین انبیاء ہوتے ہیں اور انہیں میں سے حضرت شاہ خاموش قبلہؒ کے خرق عادات وکرامات ہزارہا مشہور ہیں لیکن حضرت قبلہ ان کے اظہار سے ناخوش ہوا کرتے تھے ، سیرت نگاروں نے حضرت قبلہ ؒکی کرامت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک روز جب حضرت شاہ خاموش ؒ امروہہ میں بلول خاں کی مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ایک صاحب حضرت شاہ خاموش ؒکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ میرا کئی ہزار کا زیور کھو گیا ہے‘تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ حضرت شیخ العالم عبد الحق ردولوی چشتی صابری صاحب قبلہ ؒ کے توشہ شریف کی نیاز کریں‘اس شخص نے نیاز مان لی ‘زیور نہ ملا‘وہ شخص پھر حضرت قبلہ ؒکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت نے فرمایا پہلے توشہ شریف کی نیاز ادا کرو‘ تعمیل حکم میں وہ شخص بنئے کی دوکان پر گئے‘ڈبے سے ترازو میں بنئے نے جو شکر ڈالی اس میں زیور کی پوٹلی بھی شکر کے ساتھ گری‘بنئے نے پوٹلی اٹھانی چاہی وہ صاحب نے پوٹلی پکڑ لی اور کہا کہ یہ میری ہے بنئے نے پوٹلی دے دی اور چور کا نام بتا دیا ‘وہ صاحب مسرت کے ساتھ حضرت شاہ خاموش قبلہ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نیاز توشہ شریف ادا کی۔
یکم ذی القعدہ بروز جمعہ حضرت ؒپر غشی طاری ہوئی اور تمام حاضرین نے سمجھا کہ حضرت قبلہ ؒ کا وصال ہو گیا ،چیخ وپکار شروع ہو گئی اطباء اور حکماء نے بھی نبض دیکھ کر یقین کر لیا کہ دفات ہو گئی ،لوگوں کی آہ وفغاں سے حضر ت شاہ خاموش ؒ متوجہ ہو ئے اور دریافت فرمایا کہ آج کیا دن ہے لوگوںنے عرض کیا کہ جمعہ کا دن ہے ،حضرت شاہ خاموش قبلہؒ نے زبان مبار ک سے ارشاد فرمایا پیر کے دن پر رکھئے،بڑے فرخندہ یارجنگ جو بیٹھے ہوئے تھے معروضہ کئے کہ حضرت قبلہ ؒ کی اختیاری بات ہے‘ چند دن اور تشریف فرمارہیں تو مناسب ہے،حضرت شاہ خاموش قبلہؒ نے جواب میں ارشاد فرمایا ’’كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ‘‘اس کے چار روز بعد پیر کے دن ۴ ذ ی القعدہ ۱۲۸۸؁ ھـ بمطابق۱۵ جنوری۱۸۷۲؁ ء جبکہ حضرت قبلہ ؒ نے خانقاہ میں با جماعت نمازظہر کی ۲ رکعتیں ادا فرمائی (حافظ نور محمد صاحب ؒ امامت کر رہے تھے) تھیں کہ حالت نماز میںحضرت سیدشاہ معین الدین حسینی الملقب شاہ خاموش ؒ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔امیر کبیر میان شہوار بیگ تعلقدار نے حضرت قبلہ ؒ کے جسد کو غسل دیا اور درویش بادل ریش پانی دیتے تھے آ پؒ کا کفن مطہر گیرو داررنگ کا پہنایا ‘ مکہ مسجد میں خاص و عام بے حساب لوگوں نے حضرت شاہ خاموش ؒکے نمازجنازہ میں شرکت کی ۔ مولوی حیدر علیؒ کے صاحبزادہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔
مؤرخین وسوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ مکہ مسجد کے اطراف جو بنگلے واقع تھے‘چارمینار تک ان کی چھتوں پر ہزارہا امراء عہدیدار موجود تھے ،ہاتھیوں پر سے نیچے پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ملی تو ہا تھیوں پر ہی سوار ہوکر حضرت قبلہ ؒکی نماز جنازہ ادا کی ۔
(تاریخ محبوب ذی المنن؍دیوان حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ )
حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ ایک ایسی بسا بزرگ اور قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے دین وایمان کے استحکام اور خانقا ہی نظام کے فروغ میںحیدرآباد دکن میں اہم حصہ ادا کیا جہاں آج بھی آپؒ کے مزار مبارک پر رونق افروز روحانی منظر اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے لوگ جوق در جوق حضرت قبلہ ؒ کی بارگاہ میں آتے ہیںاور اپنی مرادیں پاتے ہیں، حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ کے اسی روحانی فیض کو رہبر دین وملت اعظم المشائخ حضرت مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری صاحب قبلہ‘ سجادہ نشین درگاہ حضرت شاہ خاموش، ؒوامیر جامعہ نظامیہ‘ جاری وساری رکھے ہوئے ہیں ۔
حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ کے دیوان میں غزَ ل کے پہراے میں حمد ونعت کے ساتھ غزلیات عرفانی کثرت سے ملتے ہیں حضرت شاہ خاموش ؒ کے کلام میں تصوف کی رمق اور اس کی چاشنی محسوس ہوتی ہے اور اس کے مطالعہ کے بعد روح میں ایک الگ قسم کی تازگی اور سکون میسر ہوتا ہے ۔ صوفی از م اور خانقاہ ہی نظام ہندوستان کا ایک بہت بڑا مذہبی و تہذبی اثاثہ ہے ،یہ بات محتاج بیان نہیں کہ آج بھی درگاہ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ حیدرآباد دکن میں بزرگان دین کی خدمت کے باعث مرجع خلائق ہے انسان جہاں حاضری د یکر سکون قلب ودماغ پاتا ہے ،شاہوں کہ نام مٹ گئے فرامو ش ہوگئے مگر اقطاب دکن کی درگاہیں ‘بارگاہیں اور خانقاہیں عوام کیلئے آج بھی ایک پیام حق ہے۔
(تفصیل کیلئے پڑھئے دیوان حضرت شاہ خاموش)