لکھنو میں اب غیر معینہ مدت کا دھرنا’دوسری راستہ نہیں ہے‘

,

   

قدیم لکھنو میں شاہین باغ‘ پریاگ راج کی گونج’بے انتہا سردی کہر‘ پھر بھی ہم یہا ں پر موجود ہیں“
لکھنو۔ دہلی کے شاہین باغ اور پریاگ راج کے دھرنے سے حوصلہ لیتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں خواتین‘ عورتیں او ربچوں نے لکھنو کے قدیم شہر میں شہریت ترمیمی قانون‘ این آرسی کے خلاف جمعہ کے روز رومی گیٹ کے قریب میں گھنٹہ نگر پر احتجاجی دھرنا شروع کردیا ہے۔

مذکورہ خواتین مخالف سی اے اے پوسٹرس ہاتھوں میں تھامے اور ’آزادی‘ کی مانگ پر مشتمل نعرے لگاتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ احتجاج مقام پر پولیس کی بھاری جمعیت متعین کردی گئی ہے۔

مخالف سی اے اے احتجاج کرنے والوں نے انڈین ایکسپرس سے بات کرتے ہوئے دعوی کیاہے کہ ان تمام کا تعلق لکھنو سے ہے اور کہاکہ مذکورہ ”امتیازی“ قانون کے خلاف عورتیں احتجاج کے لئے اترنے کی وجہہ یہ ہے کہ انہوں نے ”احتجاج کرنے والے مردوں پر پولیس اور انتظامیہ کی بے رحمی“ کو دیکھا ہے۔

ممتا ز شاعر منور رانا کی دخترفوزیہ رینا نے کہاکہ ”ہم نے جمعہ کی دوپہر 2بجے سے احتجاجی دھرنے کی شروعات کی ہے اور اب یہ غیرمعینہ مدت کے لئے ہے۔

یہاں پر دھرنے پر جو بیٹھیں ہیں ان میں کام کرنے والی اور گھروں کی ذمہ دار عورتیں‘ طالبات ہیں اور ہمارے پاس گھر سے باہر نکلنے کے سواء کوئی او رراستہ نہیں تھا کیونکہ ہم نے دیکھا ہے 19ڈسمبر کے روز سی اے اے‘ این آرسی کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے کس طرح کی بربریت کی تھی۔

جب عورتیں ہوں گی تو کم سے کم ہمیں امید ہے کہ پولیس ہمارے ساتھ جس طرح مردوں کے ساتھ سلوک کیاہے ویسا نہیں کرے گی“۔ مبینہ طور پر ایک اور خاتون احتجاجی نے کہاکہ ”یہاں پر سرد اور کہرہ والی پچھلی رات تھی اور پھر بھی ہم یہاں پر بیٹھے رہے۔

پولیس نے یہاں سے ہمیں ہٹانے کی کوشش کی پھر بھی ہم یہیں پر رہے۔ جمعہ کے رات دیر گئے ہم نے سردی کو مارنے کے لئے کچھ آگ جلائی مگر پولیس کے جوانوں نے اس پر پانی ڈال کر آگ بجھادی“۔

احتجاجیوں میں 28سالہ مرزیا بھی شامل تھی جو اپنی تین ماہ کی بیٹی کے ساتھ احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہیں اور وہ چوپاٹیاکمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہیں فوزیہ نے دعوی کیاہے کہ ان کے احتجاجی کو کسی سیاسی جماعت کی مدد حاصل نہیں ہے‘

مگر ہفتہ کی شام احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین کی ہاتھوں میں بھیم آرمی کے بانی چندرشیکھر آزاد کے تصویر پر مشتمل پوسٹرس ضرور دیکھائی دئے تھے۔درایں اثناء ہفتہ کے روز پولیس نے احتجاج میں شامل ہونے اور جہاں پر احتجاج چل رہا ہے وہاں پر جانے سے مرد حضرات کو روک دیاتھا۔

میڈیا کے نمائندوں کو بھی ان کے کارڈس دیکھانے کے بعد گروانڈ میں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔لکھنو کے جوائنٹ کمشنر آف پولیس (لاء اینڈآرڈر) نوین اروڑہ نے کہاکہ احتجاج کررہی خواتین کی درخواست پر مردوں کو احتجاجی مقام پر جانے سے روکا جارہا ہے۔

اروڑہ نے مزیدکہاکہ انہوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ اس صورت میں پرامن احتجاج کی ضمانت دے سکتے ہیں جب صرف عورتوں تک ہی یہ محدود رہے۔ بعدازاں ہفتہ کی رات میں مظاہرین نے پولیس جوانوں پر الزام عائد کیاوہ میدان میں ائے اور ان کے پاس سے بلانکٹس چھین کر لے گئے۔

اور کچھ مظاہرین نے مبینہ طور پر کہاکہ پولیس نے گھنٹہ نگر علاقہ کی برقی منقطع کردی اور قریب کے پبلک بیت الخلا کو مقفل کردیاہے۔

تاہم پولیس نے تمام الزامات کومسترد کردیا۔ اسٹنٹ کمشنر آف پولیس درگاپرساد تیواری نے کہاکہ ”تمام الزامات غلط ہیں۔ اس کے طرح کے دعوی احتجاج کو دوسرا رنگ دینے کے لئے کئے جارہے ہیں“۔