مادری زبان

   

جہانگیر قیاس
اردو ہماری مادری زبان ہے، مادری زبان کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ انسان اپنی مادری زبان میں جتنا اچھا سمجھ سکتا ہے کسی اور زبان میں وہ مشکل ہے۔ انسان کے رگ وریشے میں اتر جانے والی زبان ہے۔ آدمی خواب میں بھی مادری زبان میں بات کرتا ہے اور مادری زبان میں ہی گنگناتا ہے۔ اضطراب اور تذبذب کے عالم میں مادری زبان میں ہی بولتا ہے۔ اچانک کوئی واقعہ رونما ہونے پر اس کے منہ سے مادری زبان کے الفاظ ہی ادا ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو مادری زبان سے دور رکھیں گے تو بچے چیزوں کی اصل تک یا یوں سمجئے حقیقت تک پہنچ نہیں پائیں گے۔ ۔ تعلیم صرف سرسری مطالعہ ہوکر رہ جائیگا اور بچوں کی تخلیقی صلاحیت ماند پڑ جائے گی۔
اردو میں کئی ایک زبانوں کے الفاظ آتے ہیں جس کی وجہ سے اردو میٹھی آسان اور بولنے اور سمجھنے میں آسان ہے۔ یوں تو 12 ویں صدی عیسوی سے قطب الدین ایبک کے زمانے سے اردو اپنے خدوخال کے ساتھ موجود تھی۔ لگ بھگ 9 سو سال میں اردو نے اپنے دامن میں بہت سے پھول جمع کرلیے ہیں اور ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے اس کو سینچا ہے۔
اردو قدیم زمانے سے ہی فارسی لغات اور فرہنگوں میں فارسی الفاظ کے ہندی (اردو) مترادفات موجود ہیں۔ مولانا شیرانی مرحوم کی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ دیکھی جاسکتی ہے اور فارسی کی تاریخی کتب میں حسب موقع اردو کا استعمال ہوا ہے۔ ڈاکٹر چٹرجی نے لکھا ہے کہ اردو قدیم زمانے سے ہی آزاد بول چال کی زبان تھی۔
مشہور مراکشی سیاح ابن بطوطہ 1304-1378ء کے سفرنامے اور مغل شہنشاہ بابر (1483-1530ء) کی خود نوشت سوانح میں بھی اردو الفاظ خاصی بڑی تعداد میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت اردو کو ہندی کہا جاتا تھا یعنی ہند میں بولی جانے والی زبان اور بابر کے مجموعہ کلام میں اس کا یہ شعر درج ہے جس کا پہلا مصرعہ پورا ہے اور دوسرے مصرعے کا تین چوتھائی اردو میں ہے:
مجکا نہ ہوا کچھ ہوس مانک و موتی
فقرا مالنا بس بل گسدر پانی و روٹی
قریب قریب کچھ اس طرح سے ہے اس میں بھی اردو کا استعمال آپ کو نظر آئے گا۔ اس طرح اردو کئی ایک نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اب اپنی آب و تاب میں موجود ہے۔
مگر آج کل اس زبان کی ناقدری پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو جو چاہئے پڑھائیں مگر ساتھ ساتھ اردو کو بھی زندہ رکھیئے۔ یہ ایک زندہ جیتی جاگتی زبان ہے۔ بہت سارا ادب اس میں موجود ہے۔ اصل میں جس زبان کا ادب جتنا زیادہ ہوگا وہ زبان اتنی مضبوط اور معیاری سمجھی جائے گی۔
جب آپ معراج العاشقین کا مطالعہ کریں گے آپ حیرت میں پڑجائیں گے اس میں بالکل بھی گجراتی تلگو مرہٹی اثرات سے بڑی حد تک پاک ہے۔ ہاں اس کے مقابلے میں شاہ میراں جی شمس العشاق (متوفی 1496ء) اور ان کے صاحبزادے برہان الدین جانم (1582ء) کی تحریروں میں مرہٹی گجراتی پنجابی برج کے اثرات ملتے ہیں۔
جیسا کہ بیلی اور شری رام شرما نے لکھا ہے اس دور میں مصنف خواجہ بندہ نوازؒ نے اپنی عمر کے 65 سال دہلی میں گزارے تھے اس لیے ان کی تصانیف میں دہلی کی زبان نظر آئے گی جو اس زمانے میں کوچہ و بازار میں بولی جاتی تھی۔ اس طرح اردو بزرگ ہستیوں کی زبان بھی رہی ہے جس کی مٹھاس اور لوچ اب بھی باقی ہے۔
اردو کی ساخت کے سلسلے میں یہ امر خاص طور سے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اردو ہند آریائی خاندانوں کی زبان ہے ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اردو کا حرفی حصہ آریائی ہے اور نحوی حصہ دراوڑیا منڈا ہے۔
اردو اپنی فطرت سے بڑی ہی ملنسار اور ہرزبان سے گھل مل کر شیروشکر ہوجانے والی زبان ہے اور قدیم پراکرت اور سنسکرت سے اس کا ناطہ ہے ہی، فارسی عربی پشتو پرتگالی سے بھی اس کا رشتہ ہے۔ اردو اپنے اندر ایک بڑے الفاظ کے سمندر کو جذب کئے ہوئے ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے دین کا برا حصہ عربی اور فارسی کے بعد آپ کو اردو ہی میں ملیگا۔ اس لیے اپنے بچوں کو اردو ضرور سکھائیں اور ہر اردو جاننے والے اپنے زیر مطالعہ ایک اردو کی کتاب رکھیں اور اردو اخبار خریدیں تاکہ قوم و ملت کی پہچان بن سکے۔ کسی زبان کی موت دراصل ایک قوم و ملت کی موت ہے۔ ہزاروں سال کی ہمارے اسلاف کی محنتوں پر پانی پھر جائے گا۔
ایک بڑے مفکر کا کہنا ہے کہ آپ اگر کسی قوم کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو صرف اس قوم کو اس کی اپنی مادری زبان سے پھیردو وہ قوم خود بہ خود ختم ہوجائے گی۔ زبان کی بہت بری اہمیت ہے۔ زبان کو سمجھو اور اپنے بچوں کو اردو سکھائو یہ ہمارے بزرگوں کی زبان ہے۔ کیا آپ کو اپنے بزرگوں سے محبت نہیں ہے، انہوں نے اس زبان میں ہیرے موتی بکھیردیئے ہیں۔ علم و حکمت کے خزانے ہمارے سے پوشیدہ رکھے ہیں اگر آپ اور ہم اس کو پڑھیں اور عمل کریں تو ایک اچھے اور روشن مستقبل کی طرف چل سکتے ہیں۔
آدمی جب جذبات میں ہوتا ہے تو مادری زبان ہی میں بولتا ہے اور خوش ہوتا ہے تو مادری زبان میں ہی گنگناتا ہے اور لڑائی جھگڑوں میں بھی اپنی مادری زبان استعمال کرتا ہے۔ مادری زبان مہد سے لے کر لحد تک ساتھ دینے والی زبان ہے مگر آج کل انگریزی بولنے کو لوگ زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ ااپ بولیے مگر مادری زبان کا استعمال کریں۔ بعض اسکولس میں اردو بولنے پر چالان ہے اور والدین بڑے شوق سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بچے کے اسکول میں اردو میں بات کرنے پر چالان ہوتا ہے۔ وہ اسکول والے آپ کے بچے کو آپ سے اور آپ کے اسلاف سے دور کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ہم انگریزی کو گلے لگاتے ہیں۔ ٹھیک ہے مگر دوسرے ممالک جیسیجاپان میں تعلیم جاپانی زبان میں ہوتی ہے، چین میں چینی زبان میں ہوتی ہے، فرانس میں فرانسیسی زبان میں ہوتی ہے مگر ہمارے پاس سب چھوڑ چھاڑ کر پورا جھکائو انگریزی کی طرف ہے جس کی وجہ سے تہذیب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لوگوں کے برتائو میں تبدیلی آرہی ہے۔ سوچ تبدیل ہورہی ہے اور بزرگوں کو بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ یہ زمانہ و تہذیبوں کے ٹکرائو کا زمانہ ہے۔ آئیے آپ اور ہم مل کر اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے دین کو بچائیں جس میں انسانی اقدار موجود ہیں اور محبت اور بھائی چارا کی زبان ہے۔ کئی اخبارات مالیہ کی کمی کی وجہ سے بند ہونے کی ککار پر ہیں۔ جب سے لوگ مطالعہ سے دور ہوگئے گمراہ ہورے ہیں۔ اپنے گھروں میں نونہالوں سے اردو میں بات کریں اور اخلاق سکھائیں، ادب سکھائیں اور دینی گفتگو کریں۔ انہیں جذبات کا پاس و لحاظ کرنے والا بنائیں۔