ماموں بھانجی کا نکاح ناجائز و حرام

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ اور اس کے رضاعی ماموں کا لاعلمی میں نکاح ہوگیا۔اب دریافت طلب امر یہ ہیکہ رضاعی ماموں سے شرعاً نکاح درست ہے یا نہیں ؟ اس نکاح کے متعلق شرعا کیا حکم ہے ؟
جواب : شرعاً جس طرح ماموں، بھانجی کا نکاح ناجائز و حرام ہے، اسی طرح رضاعی ماموں بھانجی کا نکاح بھی ناجائز و حرام ہے۔فتاوی عالمگیری جلد اول باب فی بیان المحرمات ص ۲۷۳ المحرمات بالنسب میں ہے: ھن الامھات والبنات والاخوات العمات والخالات وبنات الاخ وبنات الاخت فھن محرمات نکاحا و وطأ و دواعیہ علی التأیید۔ اور ص ۲۷۷ المحرمات باالرضاع میں ہے: کل من تحرم بالقرابۃ و الصھریۃ تحرم بالرضاع علی ما عرف کتاب الرضاع کذا فی محیط السرخسی۔پس بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں لاعلمی کی بناء ہندہ اور اسکے رضاعی ماموں کا جو نکاح ہوا شرعا وہ فاسد ہے اور نکاح فاسد ہے معلوم ہونے کے بعد دونوں پر فورا ًعلحدگی اختیار کرنا لازم ہے۔ تفریق کیلئے دونوں میںسے کوئی ایک بھی دوسرے کی موجودگی یا عدم موجودگی میں تمہیںچھوڑدیا کہدے تو اس سے تفریق ہوجائیگی۔ معلوم ہونے کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا حرام کاری و زنا ہوگا۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد ۲مطلب فی النکاح الفاسد ص ۳۸۱ میں ہے: (و) یثبت (لکل واحد منھما فسخہ ولو بغیر محضر من صاحبہ دخل بھا اولا) فی الأصح خروجا عن المعصیۃ۔ فقط واللہ أعلم