مانسون کی آمد اور عوامی مسائل

   

ملک بھر میں مانسون کی آمد آمد ہے ۔ شمالی ہند میں مانسون کی آمد قدرے تاخیر سے ہوتی ہے تاہم جنوبی ہند کی ریاستوں میں مانسون پہونچنا شروع ہوگیا ہے ۔ کیرالا اور دیگر مقامات پر ماقبل مانسون کی بارشیں بھی شروع ہوچکی ہیں اور مانسون کسی بھی وقت دوسری ریاستوں تک بھی پہونچ سکتا ہے ۔قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس بار مانسون کی آمد دو تا تین دن پیشگی ہوسکتی ہے ۔ویسے تو زرعی سرگرمیوں کیلئے اور پانی کی ضروریات کے مطابق مانسون کی آمد ایک اچھی اطلاع ہے ۔ تاہم مانسون کی بارشوں کے نتیجہ میں عوام کو ہر سال جو مشکلات درپیش ہوتی ہیں ان سے نمٹنے کے منصوبے قبل از وقت تیار نہ کئے جانے اور احتیاطی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے ہر سال مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے وقتی طور پر اقدامات کا اعلان ہوتا ہے ۔ کچھ کام کئے بھی جاتے ہیں لیکن بارش کے رکنے کے بعد ان کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔ صورتحال کے مطابق وقتی اقدامات کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے ۔ خاص طور پر بارش کی وجہ سے جو صورتحال بعض اوقات پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں لاکھوںا فراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ جہاں زرعی سرگرمیوں کیلئے بارش ضروری ہے وہیں پینے کیلئے بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔ تالابوں اور دریاوں کی سطح آب میں اضافہ ہوتا ہے اور اس پانی کو آئندہ ایک سال تک کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ تاہم شہروں اور آبادیوں پر بارش کے جو اثرات ہر سال دیکھنے میں آتے ہیں ان کے مطابق حکومتوں کی جانب سے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی طرح کے انتظآمات کئے جاتے ہیں۔ اڈھاک انداز میں کام کرتے ہوئے مسئلہ کا مستقل حل دریافت کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے اور یہ روش مناسب نہیں کہی جاسکتی ۔ کہیں طوفان آتا ہے تو کہیں سیلاب کی وجہ سے تباہی مچتی ہے ۔ کہیں سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کہیں تالابوں اور کنٹوں کی اراضیات پر قبضوں کی وجہ سے کچھ آبادیاں زیر آب آجاتی ہیں۔ ہر سال حکومت کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ آئندہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ تاہم ایسا ہوتا نہیں ہے ۔
اب حالات اس حد تک بدل گئے ہیں کہ صرف دیہاتی یا ندیوں اور آبپاشی پراجیکٹس کے اطراف ہی مشکلات پیش نہیں آ رہی ہیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی بے ہنگم تعمیرات اور عدم منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ تالابوں اور کنٹوں کی اراضیات کو سیاسی سرپرستی میں قبضہ کرتے ہوئے فروخت کردیا جاتا ہے ۔ ضرورت مند افراد ان اراضیات کو خرید بھی لیتے ہیں تاہم بعد میں بارش کی وجہ سے جب مشکلات پیش آتی ہیں تو ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ تالابوں اور کنٹوں کی اراضیات پر قبضہ کی وجہ سے دوسری آبادیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور پانی ان بستیوں میں گھس جاتا ہے ۔ پانی کے بہنے کے روایتی راستوں کو بند کردئے جانے کے سبب یہ ص ورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے ہر سال صورتحال کا جائزہ لیا جاتاہ ے لیکن مستقل حل دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ ہر سال کروڑہا روپئے کی رقومات خرچ کی جاتی ہیں لیکن آئندہ سال مسئلہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس معاملہ میں سنجیدگی اختیار کرے ۔ اڈھاک طرز عمل کو ترک کرتے ہوئے ہر سال پیش آنے والے مسائل کا مستقل حل دریافت کرنے کیلئے منصوبہ تیار کیا جائے ۔ عوام کو مشکلات سے بچایا جائے ۔ پانی کے بہاؤ کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں ۔ تالابوں اور کنٹوں کی جن اراضیات پر قبضے کرلئے گئے ہیں ان کو برخواست کیا جائے اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ماسٹر پلان تیار کیا جائے ۔
تلنگانہ اور حیدرآباد میں بھی حالات گذشتہ سال انتہائی ابتر ہوگئے تھے ۔ بارش کی وجہ سے تباہی ہوئی تھی ۔ کچھ بستیاں بھی زیر آب آگئی تھیں اور مہینوں تک ان کا پانی نکالا نہیں جاسکا تھا ۔ کئی مکان منہدم ہوگئے تھے ۔ ایک سال گذر چکا ہے ۔ اب تک گذشتہ کے تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ کم از کم اب حرکت میں آتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبے تیار کئے جائیں۔ ان پر عمل آوری کی جائے ۔ عوام کو امکانی مشکلات سے بچانے کیلئے فنڈز مہیا کروائے جائیں اور ایک مقررہ مدت میں کاموں کی تکمیل کی جائے ۔ اس معاملہ میں حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔