مخالف ہندو تبصرے پر امریکہ ریڈیو کی پروڈیوسر کو ملازمت چھوڑنا پڑا

,

   

واشنگٹن۔ نئی دہلی نژاد ایک امریکہ نیشنل پبلک ریڈیو(این پی آر)پروڈیوسر کو اس وقت اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا جب جمعرات کے روز انہیں اپنے ہی ایک ٹوئٹ پر لوگوں کی برہمی کا سامنا کرنا پڑاتھا جس میں انپوں نے ہندوؤں کا ”پیشاب پینے والا اور گوبر کی پوجا کرنے والی“ کمیونٹی سے کیاتھا۔

این پی آر جس کے لئے فنڈ س پروگرام فیس‘ گرانٹس‘ اسپانسرشپ‘ اور سامعین کے تعاون‘ کے تحت مالیہ فراہم کیاجاتا ہے جس ہندو سماجی کارکن اور امریکہ میں تنظیمیں شامل ہیں نے سختی کیساتھ اس کی مذمت کی تھی‘

جن میں سے کچھ نے کہاکہ مغربی میڈیا میں مخالف ہندو سونچ کا حصہ قراردیا ہے۔ کئی سماجی کارکنوں کی جانب سے جاری کردہ مسیج میں کہاگیا ہے کہ ”این پی آر نئی دہلی پرڈیوسر فرقان خان کے ناقابل قبول ٹوئٹ پر افسوس ظاہر کرتا ہے۔

یہ تبصرہ این پی آر صحافیوں کے نظریہ کی کوئی عکاسی نہیں کرتا اور یہ ہمارے مذہبی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔

اپنے ٹوئٹ پر انہو ں نے معافی مانگتے ہوئے این پی آر سے استعفیٰ دیدیا ہے“۔

اسوقت کشیدگی شروع ہوئی جب ستمبر9کے روز خان نے ٹوئٹ کیاجس میں انہوں نے ہندوازم کے تمام ذرائع کو ہندوستانیوں کے متاثر ہونے کی اصل وجہہ قراردیا۔

انہوں نے کہاکہ”اگر ہندوستانی ہندوازم چھوڑ دیں‘ وہ اپنے مسائل بھی بڑی حد تک حل کرلیں گے۔

جو جو بھی دعوی کیاہے وہ ایک ٹرول کاردعمل ہے۔ وہ یہ تمام ہے جس میں پیشاب پینا او رگوبر کی پوجا کرنا ہے“۔

مگر انہیں کارکنوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جنھوں نے کہاکہ وہ یہ دائمی ہندو کاٹنا ہے جس میں مبینہ طور پرکشمیری پنڈتوں کی نسلی صفائی کا حصہ ہے جو ”عام تنازعہ کا بڑا نقصان ہے“۔

انہوں نے اپنی شکایت این پی آر سے کی جو واشنگٹن نژاد ہے۔ خان نے ابتداء میں تو اپنا یہ کہتے ہوئے ٹوئٹ ہذف کردیا کہ”میں دل کی گہرائیوں سے میں اپنے سابق کے ٹوئٹ پر معذرت خواہ ہوں۔ وہ ناقابل تسلیم اور خراب ذہنیت کی عکاسی پر مشتمل تھا۔

میں نے اس کو ہدف کردیاہے۔ قطعی میرا منشاء نہیں تھی کہ ہندوازم کی تذلیل یاپھر کسی کی دلآزاری کروں۔

یہ میرے عقائد اور اصولوں کی عکاسی نہیں کرتا۔ مہربانی کرکے میری معذرت خواہی کوتسلیم کریں۔ میں کچھ وقت کے لئے ٹوئٹر سے دور ہورہی ہوں“