مدھیہ پردیش ‘ مودی ۔ راہول ٹکراؤ

   

وسطی ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش میں 15 نومبر کی شام 5 بجے انتخابی مہم ختم ہوجائے گی ۔ گذشتہ تقریبا ایک ماہ سے ریاست میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں پوری شدت کے ساتھ چلائی جا رہی تھیں۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ریاست میں راست ٹکراؤ ہے اور یہاں کوئی علاقائی یا دوسری جماعت نہیں ہے ۔ریاست میں بی جے پی گذشتہ تقریبا دو دہوں سے اقتدار میں ہے اور کانگریس میں 2018 میں سوا برس تک اقتدار حاصل کیا تھا تاہم ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے ذریعہ بی جے پی نے کانگریس کو بیدخل کرتے ہوئے اقتدار پر چور دروازے سے قبضہ کرلیا تھا ۔ اب کانگریس عوامی ووٹ کے ذریعہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے اقتدار پر فائز ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ریاست میں عوام کا موڈ بھی تبدیلی کے حق میں دکھائی دے رہا ہے ۔ لوگ حکومت کی کارکردگی سے ناراض ہیں اور پرانے شہروں سے بیزار ہوچکے ہیں۔ حکومت مخالف جذبات کو محسوس کرتے ہوئے ہی بی جے پی نے کئی ارکان پارلیمنٹ کو بھی اسمبلی انتخابات کیلئے میدان میں اتار دیا ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے پوری شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلائی گئی ہے ۔ کانگریس نے خاص طور پر جارحانہ تیورکے ساتھ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی نے بھی اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ کانگریس سے راہول گاندھی نے مدھیہ پردیش میں اپنی بہن پرینکا گاندھی کے ساتھ انتخابی مہم کی ذمہ داری نبھائی ۔ بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی ہی مہم کا چہرہ رہے حالانکہ اس بار ان کے تیور زیادہ پرجوش دکھائی نہیں دئے ۔ اب جبکہ انتخابی مہم ختم ہورہی ہے نریندرمودی اپنے روایتی انداز میں کانگریس کو نشانہ بنانے اور مخصوص انداز کے جملے ادا کرنے لگے ہیں۔ راہول گاندھی کو راست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے ’ احمقوں کے سردار ‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ ملک کے کارناموں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں اور ذہنی بیمار ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ زبان ان کی بوکھلاہٹ کا بھی اظہار اور ثبوت ہوسکتی ہے ۔
آثار و قرائن میں ریاست میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت اور بی جے پی کے تلوے چاٹنے والے ٹی وی چینلس بھی مدھیہ پردیش میں کانگریس اقتدار کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ غیر جانبدار سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوام کو حقائق سے واقف کروانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ان کے سرویز میں بھی ریاست میں کانگریس اقتدار کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے ۔ ایسے میں انتخابی مہم کے بالکل اختتامی مرحلہ میں پہونچ کر وزیر اعظم کا اس طرح کے ریمارکس کرنا ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہی ہوسکتا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تنقیدیں اور طنز عام بات ہیں لیکن اس میں بھی شائستگی کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ پالیسیوں اور پروگرامس کی بنیاد پر تائید و مخالفت کی جاتی ہے لیکن اس طرح شخصی بنیادوں پر کسی کو نشانہ بنانا تہذیبی روایات کے مغائر ہے ۔ انتخابی مہم کے اختتام مراحل میں اس طرح کے ریمارکس اور شخصی تنقیدیں کم از کم وزیر اعظم کو ذیب نہیں دیتیں اور ان سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔د وسری جانب جہاں تک راہول گاندھی کی انتخابی مہم کا سوال ہے وہ صرف مسائل اور پالیسیوں کی بنیاد پر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم یا مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر یا کسی اور کو شخصی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی طرح کے شخصی ریمارکس کئے ۔ یہی صورتحال کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کی بھی رہی ۔ وہ راست عوام سے مخاطب کر رہی ہیں۔
حکومت کی ناکامیوں اور کارکردگی میں خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کانگریس کے اسٹار کیمپینرس عوام کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح سے عوامی مسائل کو موضوع بحث بنادیا گیا ہے یہی ان کی پہلی اور اہم کامیاب رہی ہے ۔ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ منافرت کا شکار کرنے کا بی جے پی کو موقع دستیاب نہیں ہوا اور بی جے پی بھی عوامی مسائل کی بنیاد پر ہی عوام سے رجوع ہونے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ کارکردگی کی اساس پر پارٹی کو عوامی ووٹ ملنے مشکل نظر آ رہے ہیں ۔ ایسے میں خود وزیر اعظم بھی انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں تاہم اس سے عوامی تائید ملنے کا امکان نظر نہیں آتا ۔