مرکز پر بھی عدالت کی برہمی

   

ملک میں انتہائی سنگین کورونا بحران نے ملک کی عدالتوں کو برہم کردیا ہے کیونکہ حکومتوں کی جانب سے اس بحران سے نمٹنے کیلئے درکار اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی اس سے عوام کو راحت پہونچانے پر کسی طرح کی توجہ دی گئی ۔ گذشتہ دنوں مدراس ہائیکورٹ نے قومی الیکشن کمیشن پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کیلئے کمیشن ہی ذمہ دار ہے اور کمیشن کے عہدیداروں پر قتل کے مقدمات بھی درج کئے جانے چاہئیں۔ آج اسی مدراس ہائیکورٹ نے مرکز کی نریندرمودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مرکز نے گذشتہ 14 مہینوں میں کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ عدالت نے مرکز سے سوال کیا کہ اس نے گذشتہ 14 مہینوں میں کیا کچھ کیا ہے ؟ ۔ عدالت نے یہ ریمارک بھی کیا کہ انتہائی سنگین بحران کے وقت میں یکا دوکا اقدامات کرتے ہوئے حالات کو قابو میں نہیں لایا جاسکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ 14 مہینوں کے دوران حکومتوں کی جانب سے سوائے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے کسی اور کام پر کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔ گذشتہ سال کے سنگین بحران کے بعد جبکہ سارے ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ہے اور عوام کو بے طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی جامع اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔ حالانکہ بارہا یہ کہا جا رہا تھا کہ دوسری لہر آسکتی ہے اور وہ شدید بھی ہوسکتی ہے اس کے باوجود حکومتوں نے ایک طرح سے کورونا کو فراموش ہی کردیا تھا اور اس کا خمیازہ آج ملک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ لاکھوں افراد یومیہ اس وائرس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہزاروں افراد کی یومیہ اموات ہو رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں افراد آکسیجن کے حصول کیلئے پریشان ہیں ۔ دواخانوں میں بستروں کے حصول کیلئے ہزاروں افراد دوڑ دھوپ کرکے ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ سارے ایسے مسائل ہیں جن کا اندازہ گذشتہ سال ہی ہوگیا تھا اس کے باوجود مرکزی حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس کی ساری کی ساری توجہ اگر کسی چیز پر تھی تو وہ انتخابات میں کامیابی پر تھی ۔ اسی کورونا بحران کے دوران بہار میں انتخابات کروائے گئے ۔
اب بھی ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کروانے گئے اور حکومت کے تمام ذمہ داروں نے صرف اور صرف انتخابی مہم پر ہی توجہ کی ۔عوامی مسائل کو یکسر نظرا نداز کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ مسلسل انتخابات میں مصروف رہے ۔ آسام سے لے کر کیرالا تک ‘ ٹاملناڈو سے لے کر پڈوچیری تک اور پھر ساری کی ساری حکومت صرف اور صرف مغربی بنگال تک محدود ہو کر رہ گئی اور درجنوں وزراء اور دوسرے قائدین بنگال میں مسلسل انتخابی ریلیاں کرتے رہے اور وہ کورونا کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے کورونا کے پھیلاو کا ذریعہ بھی بنتے رہے ہیں۔ گذشتہ سال کے تجربات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے عوام کیلئے دواخانے قائم کرنے یا پھر دواخانوں میں درکار سہولیات اور انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی اور حالات کے رحم و کرم پر سب کچھ چھوڑ دیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آج آکسیجن کیلئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ ایک ایک سانس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ ادویات کی دستیابی ممکن نہیں ہو رہی ہے ۔ ادویات ‘ آکسیجن اور ویکسین وغیرہ کی بلیک مارکٹنگ کی جا رہی ہے اور مرکزی حکومت ساری ذمہ داریاں ریاستی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے خود بری الذمہ ہونا چاہتی ہے ۔ مرکزی حکومت کا یہ رویہ اور طرز عمل انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے ۔ اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ عوام کے مسائل اور اس سنگین بحران کو حل کرنے کیلئے توجہ کے ساتھ اقدامات کی ضرورت تھی ۔
اب جبکہ عدالتو ں کی جانب سے حکومتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ریمارکس کئے ا رہے ہیں اور اب خود مرکزی حکومت سے عدالت نے سوال کیا ہے تو حکومت کو کم از کم اپنی ناکامیوں اور نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے اس خطرناک اور مہلک ترین وباء پر قابو پانے کے اقدامات میں جٹ جانا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں ملک کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اور ان کی رائے حاصل کرتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف زبانی دعووں اور جمع خرچ اور وزیر اعظم کی مدح سرائی کرتے ہوئے اپنی کرسیوں کی حفاظت میں مصروف رہنے سے عوام کو کوئی راحت نہیں مل سکتی ۔ وزیر اعظم کو خود اس سارے معاملہ کی کمان سنبھالتے ہوئے ملک کے حالات کو بہتر بنانے پر فوری توجہ کرنا چاہئے ۔