’’مسجد کے امام ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
اسلام میں امام و موذن اور اُن حفاظ کرام کا ( جو تراویح پڑھاتے ہیں ) اعلیٰ مقام ہے ۔ امامت سنت نبوی ﷺ اور سنت صحابہ کرامؓ ہے، آپﷺ امامت جبرئیلؑ کے بعد سے تاحیات امامت فرماتے رہے۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدینؓ اور مسلم سلاطین اس منصب کو اپنے لئے شرف کا باعث سمجھتے ہوئے امامت کرتے رہے ہیں۔ لوگ اپنے روز مرہ کے مسائل اور مشکلات کے حل کےلیے انہی سے رجوع ہوا کرتے تھے۔ایک موقع پر اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: ’’امام اس لئے بنائے گئے ہیں کہ اُن کی اقتداکی جائے۔ایک مطلب اس کایہ بھی ہے کہ اُن کے اچھے اوراعلیٰ اخلاق و کردار کو اپنایا جائے اور انہیں رہنما بنایا جائے۔
نبی اکرم ﷺپوری مدنی زندگی میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب رہے ۔نبی پاک ﷺنے امام کے ساتھ ساتھ موذنین کے لیے بھی بڑے اجروثواب کی بشارت دی ۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مُشک کے ٹیلےپر ہوں گے،ایک وہ جس نے اللہ کے اور اپنے غلاموں کے حقوق اداکیے ہوں ، دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اور اُس کے مقتدی اُس سے خوش رہے اور تیسرا وہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت اذاں دے کر لوگوں کو نماز کے لئے بُلایا ‘‘ ۔ ( ترمذی شریف )
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ محشرکے دن موذنین کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی، یعنی وہ دوسرے لوگوں کے مقابل نمایاں ہوں گے ‘‘۔ اللہ کے رسول ﷺنے امام اور موذن کے لیے رشدومغفرت کی دُعافرمائی ۔ (سنن ابوداؤد)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے، وہاں تک جن و انس اور جو بھی چیز آواز سنتی ہے، وہ قیامت کے دن ضرور اس کے حق میں شہادت دے گی‘‘۔(صحیح بخاری)
دراصل امام پورے محلے، پوری بستی بلکہ پوری قوم کا پیشوا ہوتا ہے جو عالمِ باعمل ہو ، نماز کے مسائل سے واقف ہو ، متقی پرہیزگار ہو ، قرآن مجید تجوید کی رعایت سے پڑھتا ہو ، جسے اُمت کا غم ہو اور قوم کی اصلاح کی فکر رکھتا ہو ،ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی کرتا ہو ۔ حاصل یہ کہ امامت کا منصب حقیقتاً نبی کریم ﷺ کی نیابت کا منصب ہے ۔ وَجَعَلْنٰهُمْ أَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِمْ فِعْلَ ٱلْخَيْرٰتِ وَإِقَامَ ٱلصَّلٰوةِ وَإِيْتَآءَ ٱلزَّكٰوةِ ۖ وَكَانُوْا لَنَا عَابِدِيْنَ o ( سورۃ الانبیاء ) یہ آیت کریمہ انبیاء کرام کی طرف اشارہ ہے ۔
اپنے قول و فعل سے اس منصب کی پامالی نہ کریں ، قوم کی ذمہ داری ہے کہ امام وموٴذن ، خدام مساجد کی حاجت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کے مشاہرہ اور اچھی تنخواہ کا انتظام کریں اور ہمیشہ اُن سے ادب واحترام سے پیش آئیں ۔ میں نے دیکھا ہے امریکہ اور یوروپ میں امام اور موذن کی بڑی قدر و منزلت ہے ۔ اُن کا بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔
مسجد کا امام ہونا بھی عجیب منصب ہے،کوئی بھی شخص امام پر اعتراض کر سکتا ہے۔ امام کیسا بھی عالی مرتبہ اور عظیم کردار کا مالک کیوں نہ ہو ،مقتدیوں کی جلی کٹی باتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو دیکھیےجلیل القدر صحابی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے، جو عشرہ مبشّرہ میں سے ایک ہیں جب امارتِ کوفہ کے دوران مصلائے امامت پہ کھڑے ہوتے ہیںتو کوفہ والوں کے اعتراضات کا محور بن جاتے ہیں۔ کوفہ والے حضرت عمر فاروقؓ کو شکایات بھجواتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاصؓ نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے! اللہ توبہ ! آج کا کوئی بھی امام سعد بن ابی وقاصؓ کے اعلیٰ مرتبہ کا نہیں ۔ (بحوالہ صحیح بخاری ) 
بالکل آج کل جیسے حالات کا منظر ہے ۔ موجودہ وقت میں اپنے معاشرے کے اٰئمہ و موذنین کی حالتِ زار اور اُن کے ساتھ لوگوں کا رویہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ ہمارا یہ خراب رویہ خود ہماری بدنصیبی اور اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔ اللّٰہ کریم ہمیں مسجدوں کے نظام میں بہتری لانے کی توفیق بخشے اور مسجد کے امام، خطیب اور انتظامیہ میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری سمجھنے اور نبھانے کی ہدایت فرمائے ۔ آمین ثم آمین