مسلمانوں کا قتل عام

   

بھرے دن کے اُجالے میں کہیں سورج نہ جل جائے
دکھوں کی کوکھ سے اُٹھنے لگا ہے پھر دھواں اپنا
مسلمانوں کا قتل عام
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران دو مساجد پر دہشت گرد حملے میں 49 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ دنیا بھر کے ممالک، عالمی شخصیتوں اور آئی سی سی سمیت مختلف تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے۔ خود نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور آسٹریلیا کے وزیراعظم نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ حملہ آور کی آسٹریلیا کا شہری برنیٹ ٹیرنٹ کی حیثیت سے شناخت کی گئی۔ اس پیمانہ پر بربریت انگیز کارروائی کی فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی اور اس نے حملہ کیلئے جو اسلحہ استعمال کیا اس پر درج عبارت کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ حملہ آور مخالف اسلام اور مسلمان نظریہ کے حامل گروپس سے تعلق رکھتا ہے۔ حملہ آور کی بندوق پر جو نام درج ہے وہ انٹیون لنڈن پیٹرسن ہے۔ یہ نام اس طالب علم کا ہے جس نے سوئیڈن میں 2 مہاجر طالب علموں کو قتل کیا تھا۔ ایک اور نام الیگزینڈر بیسونیٹ بھی تحریر ہے جس نے 2017ء میں کناڈا میں ایک مسجد پر حملہ کرکے 6 مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔ بندوق پر دیگر کئی نام ایسے ہیں جن کی تاریخ مخالف اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی کارروائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ سکندر برگ کا نام بھی بندوق پر لکھا ہوا ہے جس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کی تھی۔ البانیہ کے اس رہنما کا نام اپنی بندوق پر لکھنے والا نیوزی لینڈ کی دو مساجد کا حملہ آور اور اس کی ذہنیت تشویشناک صورتحال کو عیاں کرتی ہے۔ الغرض بندوق پر تحریر تمام ناموں کے حامل افراد عالم اسلام کے دشمن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت اور دشمنی کا نتیجہ ہیکہ مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں یہ پہلا صدمہ خیز واقعہ ہے جبکہ امریکہ، کیناڈا، برطانیہ، سوڈان وغیرہ میں مساجد پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے اسلام دشمن سیاستدانوں کی وجہ سے ہی آج ہر گوشے میں انسانوں کے اندر ایک دوسرے کے خلاف خون بہانے کا شیطانی جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اسلامو فوبیا، عدم رواداری، نفرت کے سنگین خطرات آگے چل کر کیا بھیانک رخ اختیار کرلیں گے یہ نیوزی لینڈ واقعہ کے تناظر میں غور کریں تو تشویش میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ خطرناک کھیل یوں ہی جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو ساری دنیا میں مسلمانوں کی سلامتی غیریقینی ہوجائے گی۔ لہٰذا دنیا کے امن پسند اقوام خاص کر عالم اسلام کو نیوزی لینڈ کے واقعہ کو سنگین وارننگ متصور کرکے فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ نیوزی لینڈ کو دنیا کا سب سے پرامن ملک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ملک عالمی امن کے انڈیکس میں آئس لینڈ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جس کو دنیا میں سب سے زیادہ پرامن ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن یہاں کے واقعہ کے بعد اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے ہر جگہ موجود ہونے کا بھی ثبوت مل گیا ہے۔ دنیا کے محفوظ ترین ملکوں میں شمار ہونے والے نیوزی لینڈ کی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام ممالک کے ذمہ داروں کو یہ احساس ہونا ضروری ہیکہ دہشت گردی کو صرف ایک مذہب سے منسلک کرنے کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہیکہ نیوزی لینڈ کے حملہ آور کو اقوام کی اکثریت ایک دہشت گرد قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے اس کو ذہنی معذور کہہ کر واقعہ کی سنگینی کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ معصوم مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار کو ایک ذہنی معذور قرار دینے کی کوشش سفید فام حملہ آور کو بچانا ہے۔ اس حملہ سے واضح ہوتا ہیکہ دہشت گرد کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا چاہے وہ سیاہ فام ہو یا سفید فام، مسلمان ہی دنیا بھر میں دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کہا جارہا ہیکہ ساری دنیا میں خاص کر مغربی اور یوروپی ممالک مسلمانوں کیلئے محفوظ مقام نہیں رہے۔ حقیقت تو یہ ہیکہ مسلمانوں کے خلاف حملوں کے واقعات کی تفصیل طویل ہے لیکن قابل نوٹ حملوں میں 17 اگست 2018ء کو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں دو مساجد پر ہونے والے حملے یا 2 جولائی 2017ء کو کیوبک کناڈا کی مسجد پر ایک فرانسیسی نوجوانوں کے حملہ یا 2 جولائی 2017ء کو فرانس میں مسجد پر ہوئے حملہ کی جانب توجہ دی جائے تو یہ تمام حملے اسلاموفوبیا کا نتیجہ تھے۔ سال 2017ء میں ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب سے امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیانات دیئے ہیں وہ نائین الیون کے بعد دنیا بھر میں تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ حملہ بھی اسی تعصب کا تسلسل ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اس غلاظت و نجاست زدہ نفرت کے ماحول کو صاف کرنے کیلئے اپنے سجدوں کو پاک اور توبہ کے عمل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
کانگریس، واقعی ڈوبتی کشتی ہے…!
کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والوں نے آیا ہندوستان کی اس قدیم ترین پارٹی کے خلاف مہم کو تیز کردی ہے۔ کانگریس سے ہر دن کوئی نہ کوئی لیڈر منحرف ہوکر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ بظاہر کانگریس کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن جب حکمراں پارٹی بی جے پی کے قائدین کانگریس کو ڈوبتی کشتی قرار دے رہے ہیں تو اس پر توجہ دینا کانگریس کے سینئر قائدین کی ذمہ داری ہے۔ حالیہ مہینوں میں کانگریس چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ قومی و علاقائی سطح پر پارٹیاں بدلنے کا چلن ایک عام بات ہے لیکن جب یہ عام بات کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہی زیادہ ہوتی ہے تو اس کو خاص بات سمجھنا ضروری ہے۔ یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی کے دست راست سمجھے جانے والے لیڈر ٹوم وڑکن کی جمعرات کو بی جے پی میں شمولیت کو سیاسی حلقوں میں کافی اہمیت دی گئی جبکہ راہول گاندھی نے انہیں چھوٹا لیڈر اور چھوٹا عمل قرار دیکر نظرانداز کردیا۔ کانگریس سے چلے جانے والے قائدین کی تعداد کو نظرانداز کرنا بھی ایک غلطی ہوگی۔ پارٹی قیادت کو بے بسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے حکمت عملی اور تدبر فہم و فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں ہی کانگریس کے کئی منتخب ارکان اسمبلی نے انحراف کیا ہے۔ وہ حکمراں ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں۔ اپنے مستقبل کی فکر رکھنے والے ایسے قائدین کسی بھی پارٹی کیلئے استحکام کا باعث نہیں ہوتے۔ تاہم ایسے واقعات کو روکنے کیلئے کانگریس قیادت کو حرکت میں آنا ضروری ہے۔